ایک انتہائی خوفناک حملہ، وہ بھی ایک ایسے ملک میں، جہاں اس سے قبل کبھی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا۔

نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں جمعے کی نماز کے لیے مجتمع مسلمانوں کے سفاکانہ قتلِ عام کے بعد، چند گھنٹوں کے اندر اندر وہاں کی وزیرِاعظم جسنڈا آرڈرن نے واضح کیا کہ ’اسے دہشت گرد حملے کے طور پر ہی پکارا جاسکتا ہے‘، اس کے علاوہ کئی مغربی رہنماؤں کے مذمتی بیانات میں غصہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: نیوزی لینڈ میں اب تک ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات

تاہم کئی مشاہدین، جن میں مغرب میں مقیم مخصوص رنگ کے افراد، مہاجرین اور مذہبی اقلیتی برداریاں شامل ہیں، ان کے پاس اس ظلم و بربریت کو دہشت گردی کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے کسی باضابطہ سند کی ضرورت نہیں۔ یہ حملہ تو پوری ترقی یافتہ دنیا میں محض انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ابھار کی مدد سے اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کی مختلف صورتوں کے ہوتے نقصاندہ پھیلاؤ جبکہ ان ملکوں کے سیاسی نظام اور تاریخ میں پیوست سفید فام برتری کے نظریئے (جو اب بمشکل ہی خفیہ رہا ہے) کی سرگرم ہونے کی مزید تصدیق کرتا ہے۔

حملے چاہے تن تنہا کیے گئے ہوں یا پھر مربوط انداز میں، گزشتہ روز ہونے والی فائرنگ نہ صرف کیوبیک میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی اور فنس بری پارک مساجد پر حملوں سے مماثل ہے بلکہ پیٹس برگ میں یہودیوں کے خلاف، چارلسٹن میں افریقی امریکیوں کے خلاف، حتٰی کہ 2011ء میں ناروے حملوں کی صورت میں کثیرالثقافت کے تصور کے خلاف ہونے والی دہشتگردی سے بھی مماثلت رکھتا ہے۔

پُرتشدد نفرت کے باعث ہونے والے اس قسم کے قتل عام کی تمام ہی وارداتیں انتہائی دائیں بازو کی شدت پسندی کے مرحلے کی کڑیاں ہیں، وہی شدت پسندی جس کا سدِباب کرنے میں مغربی سیاسی و دانشورانہ قیادتوں نے زیادہ کچھ نہیں کیا بلکہ کئی کیسز میں تو وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں شیطان صفت گروہوں اور ایک دوسرے کی مخالف برادریوں کے ذریعے مرکزی دھارے میں لائے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے نفرت، امیگریشن مخالف جذبات، نفرت آمیز جملے کہنے کی کھلی آزادی (ساتھ ہی ساتھ اظہار و خطاب کی آزادی کی مطلق تشریح) کو مختلف مواقع پر قانونی دھارے میں شامل کیا گیا ہے بلکہ اسے انسدادِ پُرتشدد انتہاپسندی کی پالیسی بھی بتایا گیا ہے۔

چنانچہ تحقیقاتی حکام جنہیں صرف دیگر خاص جگہوں پر نظر رکھنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے وہ ایسے نیٹ ورک سے پوری طرح سے بے خبر رہتی ہیں جو اس قسم کے حملے کروانے کے لیے لوگوں کی بھرپور انداز میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں بھرتی کرتے ہیں۔

آلٹ رائٹ (alt-right) جیسے کئی اس قسم کے گروہ خفیہ ہونے کے باوجود سب کے سامنے ہیں اور ان گروہوں کے محرکین کو سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے ذرائع بھی حاصل ہیں، جن میں فیس بک بھی شامل ہے جس پر نیوزی لینڈ میں دہشتگردی کرنے والوں میں سے ایک نے لوگوں پر اپنے سفاک حملے کو لائیو نشر کیا، اس کے علاوہ مرکزی دھارے کے مغربی خبر رساں اداروں تک بھی ان محرکین کو رسائی دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیے: نیوزی لینڈ: دہشت گرد کی بندوق پر درج عبارات کا مطلب کیا ہے؟

مگر مغربی حکومتوں کو اس خطرناک ماحول کا احساس دلانے کے لیے مزید کتنے غیر سفید فام افراد کو مرنا ہوگا کہ جو انہیں سنجیدگی کے ساتھ یہ پتہ لگانے کی ترغیب دیں کہ کس طرح اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کی دیگر صورتوں کو ہوا دی جا رہی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ مسلم ممالک میں مغرب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے شدت پسند عناصر کی پروپیگنڈہ مشین کو ہوا ملتی رہے گی اور یوں نفرت کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

فتنہ انگیز، تہذیبوں کے ٹکراؤ والے نظریات، یا کچھ بھی کہہ لیں، انہوں نے تمام ملکوں کو شدت پسندانہ تشدد کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔

چاہے دہشتگرد حملے کسی سفید فام نے کیے ہوں یا پھر کسی مسلمان شدت پسند نے، ان کے بیانیوں کو آپسی تنقید اور الزام تراشی میں پنپنے نہ دیا جائے۔

دہشتگردی چاہے کسی بھی صورت میں ہو، چاہے کسی بھی ملک میں ہو، اسے اجتماعی طور پر واضح انداز میں یک زبان ہوکر مسترد کرنا ہوگا۔


یہ اداریہ 16 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں