نئے ایل این جی ٹرمینل کے مقام کے تعین کیلئے اسٹڈی کا حکم

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2019
نجی شعبے میں ٹرمینل کے قیام کے لیے کم از کم پانچ مقامی اور عالمی کمپنیاں حکومتی اجازت کے لیے لابنگ کر رہی ہیں— فائل فوٹو: ورلڈ بلیٹن ڈاٹ نیٹ
نجی شعبے میں ٹرمینل کے قیام کے لیے کم از کم پانچ مقامی اور عالمی کمپنیاں حکومتی اجازت کے لیے لابنگ کر رہی ہیں— فائل فوٹو: ورلڈ بلیٹن ڈاٹ نیٹ

نجی سرمایہ کاروں کے درمیان مقابلے کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے حکومت نے لیکویفائیڈ نیچرل گیس(ایل این جی) کی درآمدات اور پراسیسنگ ٹرمینل سمیت توسیع کے امکانات اور آمدورفت میں اضافے کے سبب ٹریفک کے شدید دباؤ کا سامنا کرنے والی مرکزی آبی گزرگار کی صفائی کے لیے تمام بہترین جگہوں کی سائنسی جانچ کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم ایک موقع پر دیا گیا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تیسرے ایل این جی ٹرمینل کی شمولیت کے سلسلے میں تعطل کا سامنا ہے تاکہ آئندہ موسم سرما اور اس کے بعد گیس کی کمی کے بحران سے بچا جاسکے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کیلئے غور

یہ تعطل گزشتہ حکومت کے دور میں تیسرے ٹرمینل کی بولی کا عمل پراسرار طریقے سے آخری لمحے پر منسوخ ہونے سے پیدا ہوا۔

نجی شعبے میں ٹرمینل کے قیام کے لیے کم از کم پانچ مقامی اور عالمی کمپنیاں حکومتی اجازت کے حصول کے لیے لابنگ کر رہی ہیں، ان کمپنیوں میں سے کچھ اینگرو، ایگزون موبل، اینرگیس، گیس پورٹ، تریفوگورا، مٹسوبیشی اور گلوبل شامل ہیں ۔

اس وقت دو ٹرمینل اعلیٰ ترین معیار کی کم ترین استعداد کے ساتھ کام کر رہے ہیں حالانکہ گزشتہ ہفتے تک صارفین کو مستقل گیس کی کمی کا سامنا تھا جب مانگ میں ایک دم کمی آئی تھی اور حکومت کو پائپ لائن پر پڑنے والے دباؤ کے خطرناک حد تک پہنچنے کے سبب حکومت اور گیس کمپنیوں کو صارفین ڈھونڈنے میں مشکلات سامنا تھا۔

نجی صارفین کے اپنی ذاتی کارگو برآمدات کے انتظامات کے لیے حکومت کی جانب سے نجی پراٹیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ ممکنہ طور پر یہ خوف ہو سکتا ہے کہ ایل این جی کی درآمدات کی کم قیمتوں سے ان کے طویل المدتی سپلائی کے معاہدوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے کو برقرار رکھنے کا اعلان

باوثوق ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی(پی کیو اے) نے دو ٹرمینلز کے موجودہ مقام پر تیسرے ٹرمینل کے قیام کے لیے فروری 2018 میں بولی کا عمل شروع کیا تھا، چند دن میں بولی کا عمل معطل کردیا گیا اور اس کے بعد حکومت نے پورٹ قاسم اتھارٹی کے اس وقت کے چیئرمین کو عہدے سے ہٹا دیا تھا، ان کے جانشین نے پاکستان ایل این جی ٹرمینل لمیٹیڈ کے آفیشلز کی مدد سے تکنیکی رپورٹ تیار کی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن حکومت کے آخری دن بولی کے ومل کو منسوخ کردیا گیا ۔

ذرائع کے مطابق اس معاملے پر بورٹ قاسم اتھارٹی کی تکنیکی ٹیم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ ریکارڈ پر یہ بیان دیا کہ مقام کے انتخاب اور اسے مسترد کیے جانے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

حالیہ موسم سرما کے دوران ملک کو گیس کی کمی کا سامنا رہا اور اس عمل میں تعطل کے نتیجے میں موجودہ ٹرمینل آپریٹرز اور درآمدات کار 2020 کے موسم سرما تک ایل این جی کی درآمد پر اپنی اجارہ داری کر سکیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے معاملے کے برعکس اقتصادی رابطہ کمیٹی نے میری ٹائم امور کی وزارت کو حکم دیا تھا کہ وہ 2020 کے موسم سرما تک تیسرے ایل این جی ٹرمینل کے قیام اور اسے آپریشن کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

اس کے ساتھ ساتھ میری ٹائم امور کی وزارت کو یہ بھی حکم دیا گیا تھا وہ کراچی پورٹس پر ایل این جی ٹرمینل کے قیام کے لیے مناسب خصوصی ایل این جی زون کے لیے جگہ کی تلاش کے لیے سائنسی اسٹدی کرے۔

یہ اسٹڈی زمین پر بنائے جانے والے ایل این جی ٹرمینلز کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی اور اس کے مقابلے میں فلوٹنگ اسٹوریج ری گیسیفائیڈ یونٹ کا بھی تقابلی جائزہ لیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں