حکومت کو پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں11 ارب ڈالر کی موجودگی کا یقین

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2019
وزیر مملکت برائے ریونیو  نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں کاروباری افراد سے خطاب کیا—فوٹو بشکریہ فیس بک
وزیر مملکت برائے ریونیو نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں کاروباری افراد سے خطاب کیا—فوٹو بشکریہ فیس بک

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو یقین ہے کہ پاکستانی شہریوں کے بیرونِ ملک ایک لاکھ 52 ہزار 5 سو سے زائد بینک اکاؤنٹس میں 11 ارب ڈالر کی خطیر رقم موجود ہے جس میں سے آدھی رقم پاکستانیوں نے کبھی ظاہر نہیں کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) میں کاروباری افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے باہر (آف شور) اکاؤنٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ان کے مطابق تمام آف شور اکاؤنٹس پاکستان میں رہائش پذیر شہریوں کے ہیں جن میں موجود نصف سے زائد رقوم ظاہر نہیں کی گئیں اور زیادہ تر کے کاروبار قانونی لحاظ سے درست یا درج بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے نہ رکھنے والے 20 ہزار مالدار افراد کا سراغ لگالیا

ان کا کہنا تھا یہ اکاؤنٹس ملک میں ہونے والی ٹیکس چوری کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں اور اگر ہم یہ رقم واپس ملک میں لانے میں کامیاب ہوجائیں تو ہمیں کسی سے قرض مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ ان آف شور اکاؤنٹس کی نگرانی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ذریعے کی جارہی ہے۔

حماد اظہر نے بتایا کہ حکومت نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، اسٹیٹ بینک پاکستان، اور ایف بی آر کی مدد سے پاکستان کے ممکنہ ٹیکس دہندگان کا پروفائل تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوروں کی پروفائلز مرتب کرنے کے لیے تقریباً نصف کام ہوچکا ہے جو اپریل کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: ٹیکس نادہندگان کے خلاف ایف بی آر کی بڑی کارروائی کا آغاز

واضح رہے کہ چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان نے پارلیمانی کمیٹی کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں بتایاتھا کہ نہ تو ادارے نے ان آف شور اکاؤنٹس سے ٹیکس وصولی کا کوئی ہدف مقرر کیا نہ ہی پاناما لیکس کے بعد ٹیکس میں اضافہ دیکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آف شور اکاؤنٹس کی موصول شدہ معلومات پر ٹیکس کے اہداف مقرر کرنا ممکن نہیں کیوں کہ ممکن ہے کہ اکاؤنٹس ہولڈرز نے یہ رقم قانونی طریقے سے منتقل کی ہو یا ان کے پاس اس کا جواز موجود ہو۔

خیال رہے کہ تقریباً 400 اکاؤنٹس ہولڈرز کے اکاؤنٹس میں 10 لاکھ ڈالر یا اس سے زائد رقم ہونے کا امکان ہے جس میں او ای سی ڈی کی جانب سے معلومات شیئر کرنے کی بنیاد پر ایف بی آر صرف ایک فرد سے 12 لاکھ ڈالر ٹیکس وصولی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کو ٹیکس نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ہدایت

یاد رہے کہ کئی سال قبل سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی شہریوں نے 2 کھرب ڈالر کی رقم سوئس اکاؤنٹس میں رکھی ہوئی ہے تاہم اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے انہوں نے کبھی اس معلومات کے ذریعے کے بارے میں نہیں بتایا۔

انہی کے دعوے کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے اقتدار میں آکر یہ رقم واپس ملک میں لانے کا وعدہ کیا تھا جس کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے ریکوری یونٹ بھی قائم کیا ۔

تبصرے (0) بند ہیں