کراچی کو فراہمی آب کے سب سے بڑے منصوبے ’کے فور‘ کی تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2019
2009 میں کے فور کی لاگت 16 ارب روپے تھی—فوٹو: فائل رائٹرز
2009 میں کے فور کی لاگت 16 ارب روپے تھی—فوٹو: فائل رائٹرز

اسلام آباد: سینیٹ کمیٹی نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو پانی فراہم کرنے کے لیے سب سے بڑے منصوبے کے فور (K-4) کی لاگت ایک کھرب تک پہنچنے پر منصوبے کے ڈیزائن اور عملدرآمد میں غیر معمولی کوتاہیوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے اجلاس میں یہ بات سامنے آنے پر سب حیرت زدہ رہ گئے کہ 15 ارب 80 کروڑ کی اصل لاگت کے منصوبے کے فور کے پی سی ون کو 2007 میں حتمی شکل دی گئی تھی لیکن وہاں وعدے کے مطابق پانی دستیاب ہی نہیں۔

اس کے علاہ پمپنگ اسٹیشنز کے لیے 50 میگا واٹ توانائی کا فقدان جبکہ کینجھر جھیل سے کراچی کو 65 کروڑ گیلن پانی فراہم کرنے کے لیے 121 کلومیٹر طویل پانی کے بہاؤ کا نظام تعمیر کرنے کے لیے پلوں سرنگوں اور دیگر معاون سہولیات موجود ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: واٹر کمیشن: ڈی ایچ اے سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ طلب

جس پر کمیٹی ننے پلاننگ کمیشن اور سندھ حکومت کو اس بات کی انکوائری کرنے کا حکم دیا کہ کس طرح اس اہم منصوبے میں بنیادی ضروریات کو نظر انداز کیا گیا اور آیا یہ منصوبہ قابلِ عمل بھی ہے، اس کے ساتھ کمیٹی نے مذکورہ منصوبے میں تکنیکی امور کی جانچ پڑتال کے لیے یہ معاملہ پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) کو بھی بھجوادیا۔

سینیٹر آغا شاہزیب درانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سندھ میں بنائے جانے والے نئی گج ڈیم جس کی لاگت 2009 میں 16 ارب سے اب 46 ارب تک تجاوز کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا اور اس کی بھی تحقیقات کا حکم دیا۔

اس موقع پر کے فور کے ڈائریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ مذکورہ منصوبہ3 مرحلوں میں مکمل ہونا تھا لیکن پراسیسنگ اور منظوری میں تاخیر اور راستوں، ڈیزائن سے متعلق معاملات میں تبدیلیوں کے باعث یہ 2014 میں قومی اقتصادی کونسل (ای سی سی) کی ایگزیکٹو کمیٹی سے 25 ارب50 کرور روپے کی لاگت پر منظور ہوا جس کے لیے 50 فیصدلاگت وفاقی حکومت نے مہیا کرنی تھی۔

مزید پڑھیں: گرین لائن اور کے فور وزیراعظم کی توجہ کا مرکز

انہوں نے مزید بتایا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے منصوبے کی 65 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت کے لیے کوئی کوٹہ مختص نہیں تھا جس کی وجہ سے منصوبے پر کام جون 2016 میں شروع ہوا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ منصوبے کے وفاقی حکومت 12 ارب ڈالر کا اپنا حصہ فراہم کرچکی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اضافی لاگت کے ساتھ 19 ارب روپے کی منظوری دی ہے لیکن اب ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کے لیے تھرڈ پارٹی کے ذریعے منصوبے پر مکمل نظرِ ثانی کا حکم دے دیا۔

اس ضمن میں جب سینیٹرز نے پوچھا کہ اس منصوبے سے بحریہ ٹاؤن کا کوئی تعلق ہے تو کے فور کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ پائپ لائن بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی سے گزرے گی لیکن اس منصوبے سے انہیں پانی فراہم نہیں کیا جائے گا کیوں کہ ان دونوں ہاؤسنگ منصوبے کے آغاز سے قبل اس کے راستے کا تعین کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں جاری پانی، ٹرانسپورٹ کے منصوبے پہلی ترجیح ہیں، مراد علی شاہ

لیکن انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ضرورت پڑنے پر کے فور سے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی کو پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کینجھر جھیل سے ناردرن بائی پاس کے قریب مقام تک کا راستہ 121 کلومیٹر تک محیط ہے جس میں ٹھٹہ اور ضلع ملیر میں اگر متبادل راستے نہ فراہم کیے گئے تو کئی راستے بلاک ہوجائیں گے ۔

حیران کن بات یہ ہے کہ منصوبے میں راستے میں آنے والی آبادی کے ذرائع آمدورفت کے لیے سڑکیں اور پل بھی شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2014 سے اب تک منصوبے میں 42 تبدیلیاں کی جاچکی ہییں جس میں سے 22 تبدیلیاں اس کے گزرنے کے مقامات میں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیرقانونی زمین واگزار کروانےکا حکم

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ منصوبے کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 50 میگا واٹ کےخودمختار پلانٹ کی ضرورت ہےجس میں 30 سے 48 ماہ لگے یا اس سلسے میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ٹرانسمیشن لائن بچھا سکتی ہے جس سے 2 سال میں بجلی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

ڈائریکٹر کے فور نے بتایا کہ عالمی بینک اس منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میں باقاعدہ بات چیت اب تک شروع ہی نہیں ہوسکی۔

تبصرے (0) بند ہیں