’ایسا محسوس ہوتا ہے ہمارے تمام خواب چکنا چور ہوگئے‘

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2019
سید اریب اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے—فوٹو: فیس بک سید اریب احمد
سید اریب اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے—فوٹو: فیس بک سید اریب احمد

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے سید اریب احمد صرف ڈیڑھ ماہ قبل ہی پاکستان آ کر نیوزی لینڈ واپس لوٹے تھے۔

27 سالہ اریب جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے کرائسٹ چرچ میں موجود مسجد النور گئے تھے اور دہشت گرد حملے میں دیگر 49 افراد کے ساتھ جاں بحق ہوگئے تھے۔

سید اریب احمد سے چھوٹی بس ان کی ایک بہن ہے، وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور ملازمت کے سلسلے میں تقریباً 2 سال قبل نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔

ترکی خبررساں ادارے انادولو سے بات کرتے ہوئے اریب کے ماموں مظفر خان نے کہا کہ وہ ڈیڑھ ماہ قبل اپنی بہن کی منگنی کے موقع پر پاکستان آئے تھے اور اس حوالے سے نہایت خوش تھے۔

سید اریب احمد پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے، انہیں پہلے ایک مقامی کمپنی میں ملازمت ملی جس کے بعد 2017 میں وہ نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔

ان کے والد سید ایاز احمد کا کہنا تھا کہ اریب کی موت کی خبر ہمارے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی، جس پر ہمیں ابتدا میں یقین ہی نہیں آیا، کیوں کہ ہمارے گمان میں نہیں تھا کہ ایسا واقعہ نیوزی لینڈ جیسے ملک میں بھی ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: کرائسٹ چرچ حملے کے دہشت گرد نے 2016 میں کہاں کا دورہ کیا تھا؟

سید اریب احمد کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا جنہوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھائی جبکہ جز وقتی ملازمتیں بھی کیں لیکن کبھی اپنی تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

انہوں نے پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے سے بہترین نمبروں سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل کی، تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد انہیں کرائسٹ چرچ میں بہترین ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی۔

ان کے والد کا کہنا تھا کہ اریب مکمل طور پر سیلف میڈ شخص تھے، جب انہیں نیوزی لینڈ سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو ہمیں لگا کہ اب ہمارے مشکل دن ختم ہوگئے، ہم اس کی کامیابی پر نہایت خوش تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ: مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کی جان کو خطرہ

آنسو پونچھتے ہوئے اریب کے والد کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں معلوم تھا کہ مستقبل نے ہمارے لیے کیا سوچ رکھا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے ہمارے تمام خواب چکنا چور ہوگئے‘۔

خیال رہے کہ سید اریب احمد اپنے خاندان کے واحد کفیل اور والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد تھے۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں ہونے والے حملے کے بارے میں انہیں اریب کے دفتری ساتھی نے بتایا جو ان کے ساتھ ہی مسجد گئے تھے تاہم خوش قسمتی سے محفوظ رہے تھے۔

اریب کے ساتھی کو حملے میں اریب کے جاں بحق ہونے کا علم نہیں تھا لہٰذا انہوں نے والدین کو صرف یہ بتایا تھا کہ اریب حملےکے بعد سے لاپتہ ہیں۔

مزید پڑھیں: دہشت گرد نے حملے سے9 منٹ قبل ای میل بھیجی، وزیراعظم نیوزی لینڈ

بعدازاں 2 دن بعد جب نیوزی لینڈ میں موجود پاکستان ہائی کمشنر نے اریب کی موت کی تصدیق کی تو گویا ان کے والدین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کے روز النور مسجد اور لِین ووڈ میں دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

اس افسوسناک واقعے میں 50 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے حملوں کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔

فائرنگ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچی تھی تاہم فائرنگ کی آواز سن کر بچ نکلنے میں کامیاب رہی اور واپس ہوٹل پہنچ گئی تھی۔

مذکورہ واقعے کے بعد کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہفتے کو ہونے والا تیسرا ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا اور بعد ازاں بنگلہ دیش نے فوری طور پر نیوزی لینڈ کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مسجد میں فائرنگ کرنے والے دہشت گرد نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی تھی، جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہٹادیا گیا تھا۔

بعد ازاں نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزم پر قتل کے الزامات عائد کردیے گئے تھے۔

اس کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ کی کابینہ نے بندوق کے قوانین میں اصلاحات کرتے ہوئے سخت قوانین کی منظوری بھی دے دی ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ان اصلاحات کا مطلب یہ ہو گا کہ اس بدترین واقعے کے 10دن کے اندر ہی اصلاحات کا اعلان کردیں گے جس سے میرا ماننا ہے کہ ہمارا معاشرہ محفوظ ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں