مقبوضہ کشمیر میں نوجوان استاد کے دوران حراست قتل پر احتجاج

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2019
رضوان اسد کو گزشتہ ہفتے بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی نے جماعت اسلامی کشمیر کے خلاف کریک ڈاؤن میں حراست میں لیا تھا۔ — فوٹو: اناڈولو ایجنسی
رضوان اسد کو گزشتہ ہفتے بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی نے جماعت اسلامی کشمیر کے خلاف کریک ڈاؤن میں حراست میں لیا تھا۔ — فوٹو: اناڈولو ایجنسی

بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں پولیس کی زیر حراست اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان استاد کے قتل کے بعد مقبوضہ وادی میں مظاہروں کی نئی لہر نے جنم لیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں کی تحقیقات کے دوران ایک شخص دم توڑ گیا جبکہ 28 سالہ رضوان اسد کے اہلخانہ نے بھی خبر کی تصدیق کردی ہے۔

نوجوان استاد رضوان اسد نے کیمسٹری میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور وہ نجی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔

رضوان اسد — فوٹو: کشمیر میڈیا سروس
رضوان اسد — فوٹو: کشمیر میڈیا سروس

نوجوان کے قتل کی خبر ملتے ہی مظاہرین نے مختلف علاقوں میں پولیس پر پتھراؤ کیا جبکہ سری نگر کے کئی حصوں میں دکانیں بند رہیں۔

پولیس نے بھی جواب میں مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

رضوان اسد آوانتی پوارا کی اسلامک یونیورسٹی میں لیکچرار کے فرائض انجام دے رہے تھے، ان کی شہادت کے بعد حکومت نے اسلامک یونیورسٹی کو بند کردیا ہے۔

جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے آوانتی پورا کے رہائشی رضوان اسد کو گزشتہ ہفتے بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے جماعت اسلامی کشمیر کے خلاف کریک ڈاؤن میں حراست میں لیا تھا جسے فروری میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں دہشت ’گردی کے مقدمے کی تحقیقات‘ کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا، واقعے کے حوالے سے انکوائری کی جارہی ہے۔

دوسری جانب رضوان کے بھائی ذوالقرنین اسد کا کہنا ہے کہ ’ہمیں آج صبح معلوم ہوا کہ میرے بھائی کو قتل کردیا گیا ہے اور اسے پولیس حراست میں قتل کیا گیا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ کسی بھی قسم کی تحقیقات میں حقائق کے بارے میں پتہ نہیں چل سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کی تحقیقات تو چاہتے ہیں لیکن اس سے کچھ نہیں ہونے والا، ہم نے 20 سال میں ہونے والی تمام تحقیقات دیکھی ہیں‘۔

واضح رہے کہ اسد اور ان کے والد کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔

ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی سے تعلق ہونا کوئی جرم نہیں‘۔

کشمیر کے متعدد معروف سیاسی رہنماؤں نے رضوان اسد کے قتل کی مذمت کی۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’نوجوان کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے‘۔

مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ مظلوم شخص کو اس کے گھر سے تحقیقات کے لیے اٹھایا جاتا ہے اور واپسی کفن میں چھوڑا جاتا ہے، بھارتی حکومت کی جابرانہ سوچ نے نوجوان تعلیم یافتہ افراد کو خطرناک بنا دیا ہے جو اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہیں، کشمیر کو اپنی بیمار قوم پرستی کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کرنا بند کرو، ہم بہت سہہ چکے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں