ویتنام: خاتون کو ہراساں کرنے پر صرف 8 ڈالر جرمانے پر عوام میں غم و غصہ

20 مارچ 2019
ویتنام میں جنسی ہراساں کیا جانا جرم کے زمرے میں نہیں آتا — فوٹو: اے ایف پی /فائل
ویتنام میں جنسی ہراساں کیا جانا جرم کے زمرے میں نہیں آتا — فوٹو: اے ایف پی /فائل

ویتنام میں خاتون کو ہراساں کرنے والے شخص پر صرف 8 ڈالر جرمانہ عائد کیے جانے پر عوام کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور قوانین میں ترمیم کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں قائم اپارٹمنٹ کی لفٹ میں زبردستی خاتون کا بوسہ لینے والے شخص پر 2 لاکھ ڈونگ (8.61 ڈالر) جرمانہ عائد کیا گیا۔

اس سے قبل ویتنام میں 'می ٹو' مہم نے کبھی سر نہیں اٹھایا جو ایک کمیونسٹ ملک ہے، جہاں جنسی ہراساں کیا جانا بہت عام ہے لیکن اس حوالے سے بات نہیں کی جاتی۔

لفٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک شخص کو خاتون سے بات کرتے ہوئے اور انہیں ہراساں کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

خاتون کو ہراساں کیے جانے والی فوٹیج وائرل ہونے کے بعد عوام کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: ویتنام میں سائبر قانون منظور، سوشل میڈیا صارفین کی پرائیویسی خطرے میں پڑگئی

ایک فیس بک صارف نے لکھا کہ ’یہ جرمانہ ویتنامی خاتون کے وقار کی ذلت اور ان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے‘۔

آفس ورکر نگیون ترنگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے، میں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے پریشان ہوں‘۔

خیال رہے کہ ویتنام میں ریپ کے برعکس جنسی ہراساں کرنا جرم کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ ’غیر مہذب بات چیت اور رویے‘ کی کیٹیگری کے تحت ایک انتظامی خلاف ورزی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ 13 ڈالر ہے۔

گزشتہ روز ایک آن لائن پٹیشن میں جنسی ہراساں کرنے سے متعلق قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ویتنام میں جنسی ہراساں کیے جانے سے متعلق ڈیٹا عموماً سرکاری طور پر شائع نہیں کیا جاتا۔

غیر سرکاری تنظیم 'ایکشن ایڈ' کی جانب سے 2014 میں 2 ہزار خواتین سے کیے گیے سروے کے مطابق 87 فیصد خواتین اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر جنسی ہراساں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ویتنام میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 54 ہوگئی

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2010 میں آخری مرتبہ جنسی تشدد سے متعلق تفصیلی سروے شائع کیا گیا تھا اور ویتنام کی حکومت کا کہنا تھا کہ 34 فیصد خواتین نے اپنے شوہروں کی جانب سے تشدد کی شکایت کی تھی۔

انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر کیوآٹ ٹیو ہانگ نے لفٹ میں خاتون کو ہراساں کیے جانے پر عوام کے غم و غصے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اکثر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو رپورٹ کروانے سے خوفزدہ ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ردعمل ایک اچھا اشارہ ہے، معاشرے نے آواز اٹھانے والوں کی حمایت کی ہے‘۔

خیال رہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعے نے عوام کی توجہ حاصل کی ہو۔

اس سے قبل ویتنام کی ماڈل اور اداکارہ وی ٹی فنگ نے ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر 2017 میں جنسی ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن ان کی یہ کوشش ملک میں می ٹو مہم کا آغاز نہیں کرسکی تھی۔

گزشتہ برس ویتنام کے معروف اخبار کی انٹرن نے کہا تھا کہ انہوں نے ایڈیٹر کی جانب سے ریپ کے بعد خودکشی کی کوشش کی تھی، تاہم ایڈیٹر نے اس الزام کو مسترد کردیا تھا۔

پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اب تک ملزم پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں