’می ٹو‘ مہم کے بعد ’کو ٹو‘ مہم کے چرچے

ہائی ہیل پہننے والی خواتین کو پروفیشنل سمجھا جاتا ہے—فائل فوٹو: ٹائمز میگزین
ہائی ہیل پہننے والی خواتین کو پروفیشنل سمجھا جاتا ہے—فائل فوٹو: ٹائمز میگزین

اکتوبر 2017 میں ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف کم سے کم 100 خواتین کے سامنے آنے اور ان کی جانب سے پروڈیوسر پر’ریپ‘ اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جانے کے بعد شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا تھا۔

’می ٹو‘ مہم کو ہاروی وائنسٹن کیس کے بعد شروع کیا گیا تھا جس نے دنیا بھر کی خواتین کو طاقت فراہم کی اور ہر خاتون نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرکے ٹوئٹر پر اپنے ساتھ ہونے والے نامناسب رویوں پر بات کی تھی۔

امریکا سے لے کر برطانیہ، پاکستان سے لے کر ہندوستان، فرانس سے لے کر کینیڈا اور چین سے لے کر جاپان تک ’می ٹو‘ مہم کے ذریعے خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی بات کی۔

خواتین کی جانب سے کہانیاں شیئر کیے جانے کے بعد کئی طاقتور مردوں کو قانونی مقدمات کا سامنا کرنے سمیت سرعام خواتین سے معافی بھی مانگنی پڑی۔

اگرچہ اب تک ’می ٹو‘ مہم جاری ہے، تاہم اب یہ مہم کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

’می ٹو‘ مہم کے کمزور ہونے کے بعد اب جاپان سے نئی مہم ’کو ٹو‘ شروع ہوئی ہے، جس نے اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک کا رخ نہیں کیا، تاہم اس مہم نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی۔

یہ مہم اگرچہ ’می ٹو‘ سے کچھ مختلف ہے، تاہم ’کو ٹو‘ بھی خواتین سے جڑے ایک مسئلے کی وجہ سے شروع ہوئی۔

’کو ٹو‘ کو ’می ٹو‘ کا جاپانی ورژن قرار دیا جا رہا ہے اور اس مہم کے ذریعے جاپان خواتین اور خصوصی طور پر ملازمت پیشہ خواتین جوتے پہننے کی آزادی مانگ رہی ہیں۔

اس مہم کا آغاز رواں برس جنوری میں اداکارہ و ماڈل 32 سالہ یمی اشیکاوا کی جانب سے کیے جانے والے ایک ٹوئیٹ کے بعد ہوا۔

یمی اشیکاوا نے جنوری میں اپنے ٹوئیٹ میں بتایا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایک دن جاپانی خواتین ملازمت کے دوران اونچی ایڑی (ہائی ہیلز) کے جوتے پہننے کی قید سے آزاد ہوں گی۔

ساتھ ہی انہوں نے ملازمت کے دوران ہائی ہیلز پہننے کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ نوکری کرتی تھیں تب انہیں کئی گھنٹوں تک اونچی ایڑی والے سینڈل پہن کر کام کرنا پڑتا تھا، جس سے ان کے پاؤں دکھنے سمیت انہیں خفتگی کا احساس ہوتا تھا۔

یمی اشیکاوا کی جانب سے ٹوئیٹ کیے جانے کے بعد ان کی اسی ٹوئیٹ کو 30 ہزار سے زائد بار ری ٹوئیٹ کیا گیا جب کہ اس پر سیکڑوں جاپانی خواتین اور خصوصی طور پر ملازمت کرنے والی خواتین نے کمنٹس کیے۔

یمی اشیکاوا کے ٹوئیٹ کو بہت پسند کیے جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف ٹوئٹر پر ’کو ٹو‘ کا ہیش ٹیگ شروع کیا بلکہ انہوں نے چینج آرگنائیزیشن میں ایک آن لائن پٹیشن بھی دائر کی۔

انہوں نے پٹیشن دائر کرتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ جاپان کے کچھ اداروں میں خواتین کو نوکری کے اوقات میں ہائی ہیلز کی سینڈل پہننے پر مجبور نہیں کیا جاتا، تاہم زیادہ تر اداروں میں ایسے جوتے نہ پہننے والی خواتین کو اچھا پروفیشنل نہیں مانا جاتا۔

انہوں نے لکھا کہ خواتین اچھی کارکردگی دکھانے اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی مرضی نہیں بلکہ دوسروں کی مرضی کے مطابق اونچی ایڑی (ہائی ہیل) والے جوتے کئی گھنٹوں تک پہن کر کام کرتی ہیں اور ساتھ ہی وہ متعدد دشواریوں کا سامنا کرتی ہیں۔

انہوں نے پٹیشن میں لکھا کہ ہائی ہیل والے سینڈل نہ صرف خواتین کو بہتر اور پرسکون طریقے سے کام کرنے سے روکتے ہیں، بلکہ ان سے ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہیں۔

انہوں نے ہائی ہیل کے سینڈلز کو خواتین کے کمر درد، پاؤں کے زخمی ہونے اور ذہنی اضطراب کا سبب بھی قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کمپنیوں کو ہدایت کرے کہ وہ ملازمت خواتین کو ایسے جوتے پہننے پر مجبور نہ کریں۔

یمی اشیکاوا نے ٹوئٹر پر ’کو ٹو‘ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا، جسے استعمال کرتے ہوئے کئی خواتین نے اپنے تجربات شیئر کیے اور بتایا کہ ہائی ہیل والے سینڈل پہننے سے انہیں کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔

کچھ جاپانی خواتین نے ملازمت کے دوران ہائی ہیل کے سینڈل پہننے کے لیے خواتین کو مجبور کرنے پر کمپنیز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ خواتین کو اونچی ایڑی والے سینڈل پہننے کے لیے مجبور کرنا دراصل انہیں کام کی جگہ پر دل لبھانے والی شے کے طور پر دکھانے کے مترادف ہے۔

خیال رہے کہ ’کو ٹو‘ کے مخفف کا پہلا لفظ ’کو‘ جاپان کے دو الفاظ سے لیا گیا ہے، جب کہ ’ٹو‘ کا لفظ انگریزی سے ہی لیا گیا ہے۔ مخفف کے پہلے لفظ ’کو‘ کو جاپانی الفاظ (kutsu) اور (kutsuu) سے لیا گیا ہے۔

پہلا لفظ جاپانی زبان میں جوتوں اور دوسرا لفظ درد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جاپان میں اگرچہ کئی کمپنیز کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی ڈریس کوڈ جاری نہیں کیا گیا، تاہم خواتین ملازمین کو ہائی ہیل کے سینڈل کے بغیر جوتے پہننے پر زیادہ پروفیشنل نہیں سمجھا جاتا۔

ساتھ ہی خواتین کے لیے خاص طرح کے لباس پہننے کو بھی اچھا سمجھا جاتا ہے، تاہم نوکری کے اوقات کے دوران خواتین کی جانب سے ٹی شرٹ یا اس طرح کے دیگر لباس پہننے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

خواتین ملازمین کو اگرچہ نوکری کے اوقات میں تنگ یا مختصر شرٹ پہننے سے روکا جاتا ہے، تاہم انہیں اسکرٹ سوٹ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

اسکرٹ سوٹ مکمل پینٹ کے بغیر ہوتا ہے، ایسے لباس میں خواتین کی نصف ٹانگیں عیاں ہوتی ہیں۔

اسی طرح خواتین ملازمین کو اسکرٹ سوٹ کے لیے بھی خاص رنگوں کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

کام کے اوقات میں خواتین کو اسکرٹ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے—فوٹو: گو گو نہون
کام کے اوقات میں خواتین کو اسکرٹ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے—فوٹو: گو گو نہون

زیادہ تر کاروباری اداروں اداروں میں سیاہ، سفید، گرے، بلیو اور سرخ رنگ کے اسکرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں جاپان کسی جنازے، شادی کی تقریب یا عام پارٹی میں جانے کے لیے بھی مخصوص ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔

جاپان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے ثقافتی اقدار کے حوالے سے بہت زیادہ تنگ نظر سمجھے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ دوسرے ممالک کا فیشن اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔

خواتین کئی گھنٹوں تک اونچی ایڑی والے سینڈل پہن کر کام کرتی ہیں—فوٹو: آل اباؤٹ جاپان
خواتین کئی گھنٹوں تک اونچی ایڑی والے سینڈل پہن کر کام کرتی ہیں—فوٹو: آل اباؤٹ جاپان

تبصرے (0) بند ہیں