’ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں روس کے ساتھ مل کر سازش نہیں کی’

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2019
امریکی صدر پر صدارتی انتخابات میں روس کے ساتھ سازش کرنے کا الزام تھا—فوٹو: اے پی
امریکی صدر پر صدارتی انتخابات میں روس کے ساتھ سازش کرنے کا الزام تھا—فوٹو: اے پی

واشنگٹن: اٹارنی جنرل ولیم بار نے قرار دیا ہے کہ امریکی صدر کے خصوصی وکیل رابرٹ میولر کو 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم میں روس کے ساتھ مل کر ’سازش‘ کے ثبوت نہیں ملے لیکن وہ اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ امریکی صدر نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا گیا لیکن ساتھ ہی 2 سال کی تحقیقات جسے ان کی انتظامیہ کا آشیرباد حاصل تھا اس پر ناراضی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ شرمناک ہے کہ آپ کے ملک کو اس سے گزرنا پڑا، سچ کہوں تو یہ شرم کی بات ہے کہ آپ کے صدر کو اس کا سامنا کرنا پڑا‘۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی صدارتی مہم میں روسی مداخلت کی آگاہی کے الزام میں ڈچ باشندے کو سزا

تاہم ڈیموکریٹس کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ رابرٹ میولر کو رکاوٹ کے برعکس ثبوت ملے، لہٰذا ان کی مکمل رپورٹ دکھائی جائے، یہاں تک کہ امریکی صدر کے اٹارنی جنرل کی جانب سے پیش کیا گیا خلاصہ بمشکل ہی ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق وضاحت کرتا ہے۔

ولیم بار کی جانب سے کانگریس میں پیش کیے گئے 4 صفحات پر مشتمل خط میں رابرٹ میولر کی رپورٹ کا خلاصہ ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے فتح کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ ابتدا سے ہی ان کی صدارت پر سوالات اٹھ گئے تھے کہ مہم کے دوران انہوں نے روس کے ساتھ مل کر انہوں نے ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کو شکست دی۔

ولیم بار کے خلاصے کے مطابق رابرٹ میولر نے ’دونوں فریقین کے سوالات پر ثبوت‘ تلاش کیے اور قرار دیا کہ ’یہ رپورٹ اس نتیجے پر نہیں پہنچی کے صدر نے جرم کیا اور نہ ہی انہیں قصور وار ٹھہرایا جاسکتا ہے‘۔

خیال رہے کہ اس معاملے کو دیکھنے کےلیے ولیم بار کو دسمبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا جبکہ مئی 2017 میں ڈپٹی اٹارنی جنرل روڈ روسینس ٹین نے رابرٹ میولر کا تقرر کیا تھا۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی اور روسینس ٹین کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ عدالت میں ثابت کرنے کے لیے کہ ثبوت ناکافی تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تحقیقات کو روکنے کے لیے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ولیم بار صدارتی اختیارات کے معاملے پر بھی واضح آواز اٹھاتے رہے ہیں، گزشتہ برس جون میں ایک غیر متوقع میمو میں انہوں نے اس بات پر شک و شبہات کا اظہار کیا تھا کہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو جیمس کومے کو ہٹانے جیسے اقدامات کے ذریعے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جاسکتی ہے۔

ان کی جانب سے کہا گیا کہ ان کا فیصلہ رابرٹ میولر کی طرف سے واضح کیے گئے ثبوتوں پر مبنی ہے اور یہ محکمہ انصاف کی قانونی رائے پر اثر انداز نہیں ہوگا، جس میں کہا گیا کہ موجودہ صدر پر فرد جرم نہیں لگایا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں مداخلت: روس کے خفیہ ادارے اور دیگر پر پابندی

رابرٹ میولر کی رپورٹ کے مطابق ان کی ٹیم نے گزشتہ 2 برس میں صدر کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا مسلسل جائزہ لیا کہ آیا وہ رکاوٹ کا ارادہ رکھتے ہیں، ان اقدامات میں رابرٹ میولر کی تقرری سے ایک ہفتے قبل جیمس کومے کو عہدے سے ہٹانا، روس کے معاملے پر تحقیقات سے منع کرنے کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جیف سیشن پر غصے کا اظہار اور دیگر معاملات شامل تھے۔

دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ولیم بار نے کانگریس میں پیش کردہ خط میں میولر کی رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے حکام 2016 میں صدارتی انتخاب کے دوران ٹرمپ کی حریف ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کی مہم کو نقصان پہنچانے کے لیے ڈیموکریٹک کمپیوٹرز کو ہیک کرنے اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات شیئر کرنے سے متعلق روسی سازش میں شامل نہیں تھے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تحلیل ہونے والی میولر ٹیم کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں کوئی حیران کن بات نہیں کی گئی، نہ ہی کسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا جبکہ دوسری جانب مذکورہ مقدمے میں میولر کے پاس کچھ ثبوت موجود تھے لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ مجرمانہ الزامات کے لیے کافی تھے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں