سنگین غداری کیس: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو 3 آپشن دے دیے

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2019
عدالت نے پرویز مشرف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تین آپشن دے دیے— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے پرویز مشرف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تین آپشن دے دیے— فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں مزید مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سابق صدر کو 3 آپشن دے کر یکم اپریل کو مقدمے کا فیصلہ سنانے کا اعلان کردیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کی جلد سماعت کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے ان کے موکل کی خراب صحت کے سبب مزید مہلت کی درخواست کی گئی لیکن عدالت نے اس استدعا کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: غداری کیس: عدالت کا ویڈیو لنک کے ذریعے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کروانے پر غور

عدالت نے ملزم کو مہلت دینے کے بجائے 3 آپشن دیتے ہوئے کہا کہ ایک آپشن ہے کہ پرویز مشرف آئندہ سماعت پر پیش ہوں جبکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ پرویز مشرف ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروائیں۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ ملزم کے لیے تیسرا آپشن یہ ہے کہ پرویز مشرف کے وکیل ان کی جگہ جواب دے دیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا ہے کہ پرویز مشرف کی جگہ ان کے وکیل سلمان صفدر جواب دے دیں کیونکہ پرویز مشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے، یہ نہ ہو کہ عدالت کو مکے دکھا دیں۔

انہوں نے ملزم کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ یقین کریں کہ گزشتہ سماعت پر مجھے اندازہ تھا کہ پرویز مشرف ہسپتال میں داخل ہو جائیں گے۔

اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف نے عدالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور عدالت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اس موقع پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک آپشن کمیشن کے قیام کا بھی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن سے اجتناب کرنا بہت آسان ہے کیونکہ کمیشن سے پہلے پرویز مشرف ہسپتال پہنچ جائیں گے اور پھر ڈاکٹرز نے کمیشن کو مشرف سے ملنے بھی نہیں دینا، لہٰذا بہتر ہے کہ پرویز مشرف اپنا بیان خود ریکارڈ کروائیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ ایک ملزم پیش نہیں ہو رہا، اب کیا ہو سکتا ہے، ایک ملزم جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتا تو کیا عدالت بالکل بے بس ہے؟۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر قانون اس صورتحال پر خاموش ہے تو آئین سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے، اس پر ملزم کے وکیل نے بتایا کہ پرویز مشرف حکومت کی اجازت سے بیرون ملک گئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، کورٹ کی ترجیح صرف قانون ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ چھوڑ دیں کہ ملزم کون ہے، کیا عدالتیں اتنی ہی بے اختیار ہیں، پرویز مشرف عدالت میں پیش ہو کر کیس کا سامنا کریں اور اگر ملک نہیں آ سکتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروایا جائے کیونکہ دوسری صورت میں عدالت کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان کے ہاتھ باندھ کر بھارت کو کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا'

اس دوران درخواست گزار توفیق آصف نے کہا کہ معذرت کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا ہوں، لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس ملک میں کسی طاقتور کو سزا نہیں ہو سکتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت انصاف کے لیے کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے، یہ اختیار آرٹیکل 187 کے تحت صرف سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ مشرف اس تاریخ پر پیش ہوں اور اگر پیش نہیں ہوتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں، بصورت دیگر ان کی عدم حاضری پر عدالت فیصلہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ملزم کے علاج معالجے کے لیے باہر جانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص سارے معاملات کو ہائی جیک کر لے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اولیور کروم ویل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اولیور کروم ویل نے ایک پارلیمنٹیرین کو باہر پھینک دیا تھا اور انہوں نے انتہائی گندی زبان استعمال کی تھی لیکن جب وہ اقتدار میں نہ رہے تو پارلیمنٹ نے غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اولیور کروم ویل نے بھی بغاوت کی اور پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑا تاہم ٹرائل کے دوران ہی وہ فوت ہو گیا جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس کی لاش کا ٹرائل کیا جائے گا اور ٹرائل مکمل کر کے لاش کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ اولیور کروم ویل کے ڈھانچے کو عدالت میں پیش کیا جائے، سوال پیدا ہوا کہ ڈھانچے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ جرم قبول کرتا ہے یا نہیں جس پر فیصلہ کیا گیا کہ ڈھانچے کی خاموشی سے یہ تاثر لیا جائے کہ ملزم ’ناٹ گلٹی‘ کہہ رہا ہے۔

عدالت میں اولیور کروم ویل کا مزید ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ڈھانچے کو پھانسی پر لٹکا دیا اور پھر کہا کہ میں اب اور کچھ نہیں کہہ رہا، جس طرح اس ملزم کے ساتھ کیا گیا یہ ہماری تاریخ کا الگ ہی باب ہے۔

اس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ اولیور کروم ویل کی مثال پر میرے کچھ تحفظات ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کروم ویل کے ڈھانچے کی طرح مجھے بھی لٹکا نہ دیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پریشان نہ ہوں، قانون بے شک اندھا ہوتا ہے لیکن جج نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت جاتے جاتے گاڑیاں مڑ جاتی ہیں، ہسپتال سے سرٹیفکیٹس آجاتے ہیں، مشرف ٹی وی پر بیان دے سکتے ہیں لیکن اسکائپ پر پیش کیوں نہیں ہو سکتے جبکہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھی انہوں نے بڑے زبردست بیانات دیے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ کرائسٹ چرچ کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم

اس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کافی زیادہ علیل ہیں، میں نے ان سے اسکائپ پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں کر سکا، پرویز مشرف توجہ نہیں دے پا رہے تھے اور باتوں کو بھول رہے تھے۔

جس پر عدالت نے خصوصی عدالت کو اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت میں 28 مارچ کو سنگین غداری مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہے اور خصوصی عدالت اپنے طور پر فیصلہ کرے۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے مزید ریمارکس دیے گئے کہ ٹرائل کورٹ نے آئندہ سماعت پر بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق فیصلہ کرنا ہے اور فریقین متفق ہیں کہ ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔

یاد رہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خصوصی عدالت کے جج کے سربراہ کے طور پر کیس سننے سے انکار کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے حکم صادر فرمایا تھا جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے اس بینچ کی آئندہ کی تاریخ کا بھی حصہ نہیں ہوں گے۔

دوران سماعت عدالت نے حکومت سے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کی واپسی کے حوالے سے کیا اقدامات کیے ہیں۔

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملزم کی حوالگی کے قانون کے ذریعے بھی پرویز مشرف کو لانے کی کوشش کی اور انٹرپول سے بھی رابطہ کیا لیکن ہمیں دونوں ذرائع سے کامیابی نہیں ملی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومتیں عموماً ایسے مقدمات میں واپس نہیں بھیجتیں جس میں سزائے موت ہوسکتی ہو، مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ انہوں نے مشرف کو واپس کرنے سے انکار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ: انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ پارٹی آگے

سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو یکم اپریل کو فیصلہ کریں گے، ساتھ ہی پرویز مشرف کے وکیل کو حکم دیا کہ اپنے موکل سے پیشی کے متعلق ہدایات لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یکم اپریل کی تاریخ اس لیے مقرر کررہے ہیں کہ اگر ٹرائل کورٹ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی تو ہم مدد کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ملزم کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اپنے موکل سے رابطہ قائم کریں، جس کے بعد مذکورہ کیس کی مزید سماعت یکم اپریل تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں