بدین سے مبینہ مغوی ہندو لڑکی نے اسلام قبول کرلیا، شوہر کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2019
اغوا کے الزامات پر کیس رجسٹرڈ کرنے کے بعد پولیس نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا—فوٹو: شٹر اسٹاک
اغوا کے الزامات پر کیس رجسٹرڈ کرنے کے بعد پولیس نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا—فوٹو: شٹر اسٹاک

صوبہ سندھ کے ضلع بدین میں ایک نو عمر ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب وہ اس کی بیوی ہے۔

نوعمر لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کو رواں ماں آغاز میں مسلح افراد کی جانب سے رہائش گاہ سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔

اس سلسلے میں لڑکی کے والد کی جانب سے ضلع بدین کے پنگریو پولیس اسٹیشن میں کیس کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کروائی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ 17 مارچ کو 4 مسلح افراد نے گھر سے ان کی 14 سالہ بیٹی کو اغوا کیا جبکہ ان افراد میں سے 3 نامعلوم تھے۔

مزید پڑھیں: ’ دباؤ کے بغیر اسلام قبول کیا‘، مبینہ مغوی بہنوں نے عدالت سے رجوع کرلیا

جام خان پتافی گاؤں میں ہندو برادری کے شکایت کنندہ رکن کا کہنا تھی ان کی بیٹی کی زندگی انتہائی خطرے میں ہے، لہٰذا وہ انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی ’مغوی‘ بیٹی کو بازیاب کروانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔

تاہم ان 4 مشتبہ افراد میں سے ایک نے لڑکی کے مبینہ شوہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مقامی صحافیوں کو دستاویزات بھیجیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ 17 مارچ کو سمارو ٹاؤن میں پیر جان آغا خان سرہندی کے مدرسے میں ان کے ہاتھ پر لڑکی نے مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد لڑکے سے شادی کی۔

شوہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے شخص نے لڑکی کے والد کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ وہ نوعمر ہے بلکہ ساتھ ہی خود یہ دعویٰ کردیا کہ لڑکی کی عمر 19 سال ہے۔

ضلع عمرکوٹ کے پتھرو ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا کہنا تھا کہ ان کی مبینہ بیوی اور انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے سانگھڑ کی عدالت میں درخواست دائر کردی ہے۔

دوسری جانب پنگریو پولیس اسٹیشن کے عہدیدار کندو ریباری نے ڈان نیوز کو بتایا کہ اغوا کے الزامات پر کیس رجسٹرڈ کرنے کے بعد پولیس نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

اس کیس پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن مکیش میگوار نے الزام لگایا کہ ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے ایک ’گہری‘ سازش کے تحت جبری طور پر مذہب تبدیل کیا جارہا، انہوں نے بدین میں مبینہ طور پر اغوا لڑکی سمیت اسی صورتحال کا سامنا کرنے والی دیگر لڑکیوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ یہ کیس وفاقی حکومت کی جانب سے گھوٹکی میں 2 نوعمر لڑکیوں کی مبینہ طور پر جبری مذہب کی تبدیلی اور شادی کے واقعے پر لیے گئے نوٹس کے بعد سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: گھوٹکی کی نومسلم لڑکیوں کو تحفظ کیلئے سرکاری تحویل میں دینے کا حکم

اس واقعے سے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر 2 علیحدہ ویڈیوز گردش کر رہی تھیں، جس میں ایک میں لڑکیوں کے والد اور بھائی کی جانب سے کہا گیا کہ دونوں بہنوں کو اغوا کیا گیا اور جبری طور پر ان کا مذہب ہندو سے اسلام میں تبدیل کردیا گیا۔

تاہم دوسری جانب لڑکیوں کی وائرل ویڈیو میں یہ کہتا ہوا دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

بعد ازاں دونوں نومسلم بہنوں اور ان کے شوہروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

درخواست میں دونوں بہنوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اور بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔

درخواست میں وزارت داخلہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، آئی جی پولیس پنجاب،سندھ اور اسلام آباد، پیمرا، پاکستان ہندو کونسل کے نمائندہ اور رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اور دونوں لڑکیوں کے والد ہری لعل کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا میں ہندو لڑکیوں سے متعلق غلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جان کو خطرات ہیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھوٹکی کی دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جانب سے دائر درخواست میں ریاست کو حکم دیا کہ وہ دونوں لڑکیوں کی تحویل میں لے اور ان کا تحفظ یقینی بنائے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پیر کو پولیس نے اس کیس میں نکاح خواں سمیت 7 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں