اپوزیشن رہنماؤں کا انکار، نیشنل ایکشن پلان پر مشاورتی اجلاس منسوخ

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2019
شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پرخصوصی اجلاس طلب کیا تھا — فائل فوٹو : دفتر خارجہ
شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پرخصوصی اجلاس طلب کیا تھا — فائل فوٹو : دفتر خارجہ

حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کی معذرت پر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں بلائے گئے مشاورتی اجلاس کو منسوخ کردیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما شہباز شریف نے بذریعہ خط جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل نے بذریعہ فون، اپنی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر مشاورتی اجلاس منعقد نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی بریفنگ، اپوزیشن کے بائیکاٹ کا امکان

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی بریفنگ میں شرکت کے لیے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے تھے۔

خط میں وزیر خارجہ نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بننے والے نیشنل ایکشن پلان کا ذکر تو کیا تھا لیکن اسی کے تحت دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لیے تشکیل دی جانی والی فوجی عدالتوں کا ذکر موجود نہیں تھا۔

اس حوالے سے اپوزیشن رہنماؤں کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ مشاورت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے ہے۔

شاہ محمود قریشی کی جانب سے دعوت نامے کے جواب میں شہباز شریف کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر اپوزیشن مل جل کر فیصلے کرنے پر یقین رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق حکومت کی اپوزیشن سے مشاورت

لہٰذا یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ آپ اپنی مجوزہ بریفنگ قومی اسمبلی کو دیں تاکہ ملک کے چند منتخب پارلیمانی رہنماؤں کے بجائے پوری پارلیمنٹ کی مجموعی دانش سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت ماضی میں نیشنل ایکشن پلان کو مسترد کر چکی ہے اور اس نے 28مارچ کی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

24 مارچ کو وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کے سیاسی جزو پر عمل درآمد کے لیے آگے بڑھنا چاہتی ہے جس کے لیے سیاسی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے، اسی لیے میں نے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو دعوت دی ہے اور انہیں خطوط بھی لکھے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر شہباز شریف کے چیمبر جانے کو تیار ہوں، شاہ محمود قریشی

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اس معاملے پر پارلیمان میں بات کی جائے جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ پارلیمنٹ سب سے بہترین فورم ہے، قومی مسئلے پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے مجھے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر میں بھی جانا پڑے تو میں جانے کو تیار ہوں۔

نیشنل ایکشن پلان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس کے لیے ایک قومی سوچ درکار ہے اور مجھ سمیت پوری قوم یہ توقع کرتی ہے کہ ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود قومی مسائل پر ہم آپس میں مشاورت کرتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن کی مدت 2 سال تھی، ان عدالتوں کے تحت دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شہریوں کے مقدمے ان میں چلانے کی اجازت دی گئی تھی اور دوسالہ آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ عدالتیں جنوری سے مارچ 2017 تک غیر فعال رہی تھیں تاہم بعد ازاں سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے باوجود ان کی مدت میں 2 سال کی توسیع کردی گئی تھی اور جس کی مدت رواں ماہ ختم ہوجائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

junaid akhter Mar 27, 2019 04:44pm
This is really a nice and informative. containing all information and also has a great impact on the new technology. Thanks for sharing it. daniel sharmanr