عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن مرحلے میں داخل، ساڑھے 3 برس بعد شہادتیں مکمل

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2019
عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو قتل کیا گیا تھا—فوٹو:اے ایف پی
عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو قتل کیا گیا تھا—فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ساڑھے 3 سال بعد شہادتیں مکمل کرلیں۔

اس اہم پیشرفت کے بعد اب عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوگیا، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں کیس کی سماعت جج شاہ رخ ارجمند نے کی۔

سماعت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے بتایا گیا کہ تمام دستیاب شواہد عدالت کے سامنے رکھ دیے ہیں فی الحال مزید کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔

جس پر عدالت نے ملزمان کا بیان قلمبند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ چیلنج

ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم کا بیان کرمنل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 342 کے تحت ریکارڈ کیا جائے گا۔

عدالت نے کہا کہ 10 اپریل کو سماعت میں ملزمان کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے سوالنامہ فراہم کیا جائے گا جس کے بعد کیس کی سماعت 10 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ مقدمے میں نامزد 2 ملزمان خالد شمیم اور سید محسن علی میجسٹریٹ کے سامنے پہلے ہی اپنا اعترافی بیان قلمبند کرا چکے ہیں جس میں انہوں قتل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان بانی متحدہ کی قیادت کے لیے خطرہ تھے۔

تاہم تیسرے ملزم معظم علی نے اب تک اپنا اعترافی بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ٹرائل روکنے سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست مسترد

خالد شمیم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے بانی کے لیے سالگرہ کا تحفہ تھا جبکہ محسن علی نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے قتل میں اس لیے معاونت کی کہ اسے ایم کیو ایم کے لندن سیکریٹریٹ میں عہدہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی گئی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں