شوکت صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کا فیصلہ مسترد کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2019
جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں متنازع تقریر کی تھی—فوٹو: ڈان نیوز ٹی وی
جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں متنازع تقریر کی تھی—فوٹو: ڈان نیوز ٹی وی

اسلام آباد: کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سبب بننے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے 11 اکتوبر 2018 کے فیصلے کو مسترد کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی بار ایسوسی ایشن نے سینئر وکیل رشید اے رضوی کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی جس میں جسٹس (ر)شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے 21 جولائی 2018 کی تقریر میں لگائے الزامات اور ان کے جمع کروائے گئے جواب کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 25 مارچ کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا جس میں انہوں نے 11 اکتوبر 2018 کو اپنی برطرفی کے حکم نامے کو چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے مذکورہ درخواست پر سماعت دوباہ شروع کرنے کے چند روز بعد ہی کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ رد کرنے کی درخواست دائر کردی گئی۔

کے بی اے کی پٹیشن میں سیکریٹری قانون کے ذریعے وفاقی حکومت، سپریم جوڈیشل کونسل، سابق جج، اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور خان کانسی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سابق جج شوکت صدیقی کی درخواست پر اعتراضات ختم، سماعت کیلئے منظور

پٹیشن میں کہا گیا کہ سابق جج کی جانب سے عدالتی معاماات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے، خاص طور پر جب تحریری طور پر نام لے کر اعلیٰ فوجی افسران پر ہائی کورٹ کے جج کے پاس جانے کا الزام لگایا گیا تو اس کا مکمل ٹرائل ہونا نہایت ضروری ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اصل معاملے کو یہ کہتے ہوئے پسِ پشت ڈال دیا کہ وہ متعلقہ نہیں تھے، چاہے وہ الزامات حقیقی ہوں یا غلط۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ الزمات کی سچائی جاننے کے لیے انکوائری مسترد کرنے اور جج کو الزمات ثابت کرنے کا موقع نہ فراہم کرنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل انہیں غیر مصدقہ الزامات پر قصوروار نہیں ٹھہرا سکتی۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام

درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی جج کی برطرفی کے لیے آرٹیکل 209 کے اطلاق کے لیے جج کی جانب سے حقیقی نامناسب رویہ ہونا لازمی ہے لہٰذا صرف روایتی تقاضوں کو پورا کرنے پر ناکامی آرٹیکل 209 ک اطلاق کے لیے ناکافی ہے۔

خیال رہے کہ جسٹس (ر) شوکت صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی تجویز پر راولپنڈی ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب میں مس کنڈکٹ آرٹیکل 209 کا اطلاق کرتے ہوئے ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سابق جج نے کچھ افسران پر عدالتی امور میں مداخلت بالخصوص آئی ایس آئی افسران پر ہائی کورٹ کی بینچز کی تشکیل کے لیے عدالتی معاملات میں ساز باز کرنے کا الزام لگایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں