’کوہستان قتل کیس میں اے این پی رہنماؤں اور پولیس نے مجرمان کا تحفظ کیا‘

02 اپريل 2019
پولیس کے اہم عہدیدار نے عدالت کو بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل نہیں کیا گیا اور وہ زندہ ہیں—تصویر فائل/اسکرین شاٹ
پولیس کے اہم عہدیدار نے عدالت کو بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل نہیں کیا گیا اور وہ زندہ ہیں—تصویر فائل/اسکرین شاٹ

اسلام آباد: انسانی حقوق کی معروف رضاکار فرزانہ باری نے خیبرپختونخوا کی سابق حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کوہستان قتلِ کیس میں ملوث ملزمان کو تحفظ دے رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ڈاکٹر جہانزیب جمال الدینی کی سربراہی میں ہوا جس میں کوہستان قتل کیس کے معاملے پر گفتگو ہوئی، اجلاس میں ڈاکٹر فرزانہ باری نے اراکینِ کمیٹی کو بریفنگ دی۔

واضح رہے کہ کوہستان قتل کیس 2011 میں منظر عام پر آیا تھا جب یہ رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ایک ویڈیو میں نو عمر لڑکیوں کے سامنے رقص کرنے پر جرگہ نے رقص کرنے والے لڑکوں اور اسے دیکھنے والی لڑکیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں ان میں سے ایک لڑکے کے بھائی اور اس کیس کو منظرِ عام پر لانے والے شخص محمد افضل کوہستانی کو بھی گزشتہ ماہ قتل کردیا گیا تھا۔

کمیٹی اجلاس میں فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ کوہستان قتل کیس کے پورے معاملے میں کچھ سراغ پوشیدہ ہیں اور صوبائی بیوروکریسی اور سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ ساز باز کر کے قتل میں ملوث افراد کو تحفظ دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف خیبر پختونخوا پولیس نہیں بلکہ اے این پی کے رہنما بھی قاتلوں کو تحفظ دینے کی پشت پناہی کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو کیس: لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا، سپریم کورٹ میں رپورٹ

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ مذکورہ کیس کی پیروی کرنے پر انہیں بھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور اگر انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار خیبر پختونخوا پولیس ہوگی۔

انہوں نے الزام لگایا گیا کہ 2012 میں اے این پی کی صوبائی حکومت نے اس معاملے کو دبانا چاہا تھا اور جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود نوٹس لیا تو کے پی پولیس کے اہم عہدیدار نے عدالت کو بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل نہیں کیا گیا اور وہ زندہ ہیں۔

جس پر سابق چیف جسٹس نے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو لڑکیوں سے ملاقات کرنے کے لیے ایک کمیشن بھیجنے کی ہدایات کی تھی جس میں فرزانہ باری، بشریٰ گوہر، میاں افتخار، منیرہ عباسی اور صوابی کے ایک سیشن جج شامل تھے۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: ملزمان کے خلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز

فرزانہ باری نے بتایا کہ جب مشن وہاں گیا تو صوبائی حکام نے ان کے سامنے 2 لڑکیاں پیش کر کے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو والی لڑکیاں ہیں لیکن انہوں نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ ویڈیو والی لڑکیاں نہیں ہیں لیکن بشریٰ گوہر اور سیشن جج نے انہیں وہی لڑکیاں قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے لڑکیوں کی کئی تصاویر برطانیہ میں موجود ڈیجیٹل لیب کو بھیجیں اور اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان لڑکیوں اور ویڈیو میں نظر آنے والی 2 لڑکیوں سے محض 14 سے 40 فیصد مماثلت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں