وزیر خزانہ کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا دفاع

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2019
مہنگائی میں اضافہ 2008 اور 2013 میں سابق حکومتوں کے پہلے سال کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
مہنگائی میں اضافہ 2008 اور 2013 میں سابق حکومتوں کے پہلے سال کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6.45 فیصد تک کے حالیہ اضافے سے متعلق فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے قیمتوں میں دگنا اضافے کی تجویز دی تھی لیکن یہ مکمل طور پر صارفین پر منتقل نہیں کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے منعقدہ تقریب میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی اور موجودہ تیل کی قیمتوں کے معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ بحث کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں اور معیشت کی مشکلات کم از کم 2 سال کے لیے تب تک جاری رہیں گی جب تک حکومت کا اقتصادی اصلاحات کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات 11 روپے 91 پیسے تک مہنگی کرنے کی تجویز

اس موقع پر صحافیوں نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے اسد عمر کو یاد دلایا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 40 سے 50 روپے کرنے کی حمایت کرتے تھے لیکن اب جب پی ٹی آئی اقتدار میں ہے تو یہ قیمت دوگنا ہے۔

جس پر اسد عمر نے سابق اسپیکرکو چیلنج کیا کہ وہ بحث کے لیے کیمرے پر آئی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بتائیں گے کہ کس طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تیل کی قیمتوں کے ساتھ کھیلا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی بات کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت وہ بالکل درستے تھے کیونکہ جب بین الاقوامی تیل کی قیمتیں 30 سے 32 ڈالر فی بیرل کی حد میں تھیں اور اب یہی قیمتیں دوگنا ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ریگولیٹر کی جانب سے تجویز کی گئی قیمتوں میں صرف آدھے کے اضافے کی منظوری دی۔

اسد عمر نے موجودہ اور ماضی میں ٹیکس کی شرح کا مقابلہ کرنے کو اہم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سابق حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس لے رہی تھی جبکہ موجودہ حکومت 10 سے 12 فیصد ٹیکس لے رہی اور اس میں بھی حال ہی میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے 2 سے 3 ماہ قبل تک پیٹرولیم مصنوعات پر کم ٹیکس چارج کیا، دوسرا یہ کرنسی کی قیمت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور یہ عمل اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم تھے۔

وفاقی وزیر نے فورم کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج ریٹ اچانک ایک ڈالر کے مقابلے میں 22 روپے تک گرکیا تھا اور ہر کوئی یہ تجویز دے رہا تھا کہ روپے کی قدر زیادہ ہے جبکہ اب یہ اپنی اصل قدر کو پہنچا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول ڈھائی روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 4.75 روپے مہنگا

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے تسلیم کیا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن یہ 2008 اور 2013 میں ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کی وجہ سے ہوا۔

تاہم انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ 2018 میں مہنگائی میں اضافہ 2008 اور 2013 میں سابق حکومتوں کے پہلے سال کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔

اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت کو متحدہ عرب امارات سے 2 ارب ڈالر، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اور چین سے 2.1 ارب ڈالر وصول ہوگئے ہیں، جس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کو اب یقین ہے کہ ایکسچینج ریٹ توازن برقرار رکھے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں