جعلی اکاؤنٹس کیس راولپنڈی منتقل کرنے کےخلاف تمام اپیلیں مسترد

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2019
جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 4 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ —فوٹو: اے ایف پی
جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 4 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ —فوٹو: اے ایف پی

سندھ ہائی کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کراچی سے راولپنڈی منتقل کرنے کے بینکنگ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلے کے خلاف تمام اپیلیں مسترد کر دیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، عبدالغنی مجید، انور مجید اور حسین لوائی نے بیکنگ کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چینلج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی بڑی کارروائی کرنے جارہے ہیں، وزیر اعظم

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زردای، فریال تالپور، اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید، ان کے بیٹے سمیت 10 افراد کے خلاف بینکنگ کورٹ میں گزشتہ برس اگست میں چارج شیٹ پیش کی تھی۔

چارج شیٹ میں ملزمان کے خلاف سمٹ، سندھ اور یونائیٹڈ بینک میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 4 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر بینکنگ کورٹ نے 15 مارچ 2019 کو جعلی بینک اکاؤنٹ کیس راولپنڈی احتساب عدالت میں منتقل کر دیا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے نئے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دے کر نیب کو آزادانہ طور پر 2 مہینے کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت دی۔

گزشتہ سماعت میں نیب کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب سے متعلق آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے آج اپنے دلائل پیش کیے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے صرف مزید تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا تاہم مقدمے کو منتقل کرنے کا کوئی جواز نہیں‘۔

فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ’نیب عدالت کو مقدمہ کی سماعت کا اختیار نہیں اور نیب چیئرمین کو عدالت میں جمع ہونے والے حتمی چالان تک انتظار کرنا چاہیے‘۔

حسین لوائی اور طلحہ رضا، شوکت حیات کے وکیل نے حتمی دلائل میں کہا کہ ’یہ تاریخ کا پہلا مقدمہ ہے جو ایک صوبے سے دوسرے صوبے کو منتقل کردیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ درج ہوا تو اس کا بھی دفاع کر سکتا ہوں، زرداری

انہوں نے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ کیس منتقل کرنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی نیب کے چیئرمین یہ اختیار رکھتے‘۔

شوکت حیات نے کہا کہ ’چیرمین نیب کو دوسرے صوبے میں منتقل کر نے کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تاہم اس مقدمے کی انکوائری 2015میں بند کردی گی تھی‘۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے تمام اپیلیں مسترد کردی جس کے بعد مقدمہ کراچی سے راولپنڈی احتساب عدالت میں منتقل ہونے کے امکان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں