امریکی سفارتخانے کی تعمیر، غیرقانونی منظوری پر سی ڈے اے کے خلاف تحقیقات کا آغاز

03 اپريل 2019
ایف آئی اے نے امریکی سفارتخانے کی تعمیر کے ریکارڈز طلب کرلیے۔ — فوٹو: ڈان اخبار
ایف آئی اے نے امریکی سفارتخانے کی تعمیر کے ریکارڈز طلب کرلیے۔ — فوٹو: ڈان اخبار

اسلام آباد: امریکی سفارتخانے کی عمارت کی تعمیر کے لیے بلڈنگ پلان کی غیرقانون منظوری دینے کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے) کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ایف آئی اے نے سی ڈی اے کو گزشتہ ماہ سفارتخانے کے کیس کے تمام دستاویزات حاصل کرنے کے لیے خطوط لکھے تھے۔

مذکورہ خطوط میں کہا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ہدایت پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جسے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سپرد کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے سی ڈی اے کو تحقیقات کے آغاز کے بارے میں باضابطہ طور پر خطوط کے ذریعے ہی آگاہ کیا جبکہ امریکی سفارتخانے کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے سی ڈی اے حکام کے پاس موجود ریکارڈ، متعلقہ رپورٹس اور تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: امریکی سفارتخانے کا چیف سیکیورٹی افسر گرفتار

تحقیقات کے آغاز کے بارے میں تصدیق کرتے ہوئے سی ڈی اے حکام نے ڈان کو بتایا کہ ہم ایف آئی اے کو تمام دستاویزات فراہم کردیں گے۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ حساس نوعیت کا ہے، تاہم اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ 2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (سی ڈی اے) ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکی سفارت خانے کی اس 8 منزلہ عمارت کی تعمیر سی ڈی اے کی منظوری سے ہوئی۔

سینیٹر حافظ حمداللہ کی جانب سے جمع کروائے گئے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے امریکی سفارتخانے کی تعمیر سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سفارتخانہ بتائے،عافیہ صدیقی کا کیا حال ہے؟چیف جسٹس

انہوں نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ سی ڈی اے نے امریکی سفارتخانے کو 8 منزلہ عمارت بنانے کی منظوری دی تھی جبکہ بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کو بھی یہی منظوری دی گئی تھی۔

سینیٹر حافظ حمداللہ نے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے بعد توجہ دلاؤ نوٹس سینیٹ میں جمع کروایا تھا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے وزیرِاعظم کی منظوری کے بغیر امریکی سفارتخانے نے تعمیرات شروع کردی تھیں، جبکہ سی ڈی اے حکام اسے روکنے میں بھی ناکام رہا تھا۔

سینیٹر حافظ حمداللہ نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے 2012 میں ایک خط موصول ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اس عمارت کی چھت پر جاسوسی کے لیے ایک آلہ لگایا جاسکتا ہے جس کی مدد سے حکومتی دفاتر کی نگرانی کی جاسکے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں امریکی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر جوابی پابندیاں عائد

تاہم طارق فضل چوہدری نے سینیٹ کو بتایا کہ دفتر خارجہ اور انٹیلی جنس حکام سے رابطہ کیا گیا تھا جنہوں نے سی ڈی اے کو بتایا تھا کہ امریکی سفارتخانے کی تعمیر میں جاسوسی کے آلات استعمال کرنے کے شواہد نہیں ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس جدید دور میں چھتوں پر جاسوسی کے لیے آلات نصب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب تمام معاملات گوگل میپ کے ذریعے لائیو دیکھے جاسکتے ہیں۔

سینیٹ اجلاس کے بعد ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ انہیں سی ڈے اے نے تحریری طور پر بتایا تھا کہ امریکی سفارتخانے کا بلڈنگ پلان 2012 میں منظور کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منظوری کے بعد ادارے نے وزیراعظم سے اجازت کے لیے بات چیت شروع کردی تھی، تاہم امریکی حکومت نے پلان کی منظوری کے لیے سی ڈی اے کو تمام دستاویزات دینے کے ساتھ ساتھ فیس بھی فراہم کردی تھی۔


یہ خبر 03 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Apr 03, 2019 03:55pm
$$$$$ ka chkkar ho ga koi???? $$$$ kam milay hon gein jaisay hiee paisay puray hon gein........har cheez Qanooni ho jayey giee....