ایف ایس اعجاز الدین مصنف ہیں۔
ایف ایس اعجاز الدین مصنف ہیں۔

پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے گرینیڈز سے پن نکال دی ہے اور صرف ماہرین ہی جانتے ہیں کہ دھماکہ کب ہوگا، لیکن یہ کہاں ہوگا؟ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

1947ء سے لے کر اب تک برِصغیر میں تو جیسے جنگ کے بھوت نے ہمیشہ کے لیے سکونت اختیار کرلی ہے۔ اس کا سایہ ہمارے حواس پر اس قدر اثر کرچکا ہے کہ اب مفاہمت، کسی ایک نکتے پر اتفاق کرنے کے لیے مباحثہ کرنے سے زیادہ فطری طور پر لڑائی جھگڑے کا خیال آتا ہے۔

وہ سرحد جو ہمالیہ کی بلندیوں کو سندھ کے ساحل سے جوڑتی ہے، اس کے دونوں اطرف موجود جنگی جنون رکھنے والے جہاں مسلح لڑائی کا مطالبہ کرتے ہیں وہیں امن کے حامی ’ایک بلاتعطل اور پائیدار‘ مذاکرات چاہتے ہیں۔ تاہم دونوں کو خبر نہیں کہ قومی جارحانہ رویے اور امن پسندی درحقیقت مقامی جغرافیائی خصوصیات سے مشروط ہوتی ہے۔

مزید پڑھیے: پاک بھارت کا آبی رشتہ اور فطرت کا نقصان

جب کبھی زمینی سرحدوں کو قدرت سے نپٹنا ہوتا تب ویسٹ فالیہ کے قومی ریاستوں کے تصور زیر آزمائش آتے ہیں۔ کون وہ پہاڑ رکھے جو بین الاقوامی سرحد کے بیچ کھڑا ہے؟ کون وہ دریا رکھے جو ایک یا اس سے زائد ممالک میں بہتا چلاجاتا ہے؟ اس پانی کو استعمال کرنے کا حق کس کو حاصل ہے، یہاں تک کہ جس ملک میں دریا کا بالائی حصہ بہتا ہے، کیا وہ اس ملک کا پانی روکنے کا مجاز ہے جہاں دریا کا زیریں حصہ بہتا ہے؟

1947ء میں سرل ریڈ کلف نے ان اہم سوالوں پر زیادہ ذہن نہیں دوڑایا۔ لہٰذا جب وائس رائے ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مصالحت کنندہ کا کردار نبھانے کے لیے یہ تجویز دی کہ انہیں دونوں ملکوں کے گورنر جنرل کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہیے، تو قائداعظم نے اس رائے کو مسترد کردیا۔

قائد اعظم نہیں چاہتے تھے کہ ماؤنٹ بیٹن احساسِ جرم سے مغلوب سرجن کی طرح پیش آئیں جو بے دردی سے کیے گئے زخمی ٹکڑوں کو ٹھیک کرنے کی پیش کش کرتا ہو۔ ماؤنٹ بیٹن جون 1948ء تک بحیثیت ہندوستان کے گورنر جنرل نئی دہلی میں قیام پذیر رہے، مگر پھر بھی وہ بگڑتے زخموں کی خاطر خواہ بخیہ گری نہیں کرسکے، پھر چاہے وہ حیدرآباد، جموں کشمیر، جونا گڑھ، اور سب سے اہم پنجاب کے پانیوں کے استعمال اور ملکیت کے حق کا معاملہ ہو۔

تازہ وجود میں آئے دونوں ملک اپنی آزادی کے محض 2 برسوں کے اندر ہی پانی پر لڑائی کے دہانے پر آگئے۔ ہمارے وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ نے ہندوستان کو خبردار کیا کہ ’پانی کے بہاؤ میں کمی ہوئی یا اگر پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا خدشہ بھی ہوا تو اس کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ پر محیط زرخیز زمین بنجر زمین میں بدل جائیں گی۔‘ انہوں نے اشارہ دیا کہ پانی پر اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر پاکستان جنگ کے لیے تیار ہوگا۔

موجودہ دور کے دانشور ڈینئیل ہائینز نے 2017ء میں لکھی گئی اپنی کتاب ’انڈس ڈیوائیڈڈ‘ (Indus Divided) میں یہاں کی زمینی خودمختاری اور اس خطے میں سرحد کے دونوں اطراف موجود وسائل پر خودمختاری کے درمیان فرق واضح کیا ہے۔ سڑکوں اور ریلوے کو تو سرحد تک محدود کیا جاسکتا ہے مگر بہتے پانی کا مالک کون ہے؟ جو ڈیم اور کینالوں کے سوا کسی چیک پوسٹ یا کسی کسٹم رکاوٹ کو نہیں جانتا ہے۔

دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم پر ورلڈ بینک کی ثالثی قبول کرنے سے پہلے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس تقسیم پر 13 برس کی شدید الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ریڈکلف کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کا مداوا کرنے کے لیے تجربہ کار امریکی آبی منتظم ڈیوڈ ای لی لئینتھل سے خدمات لی گئیں۔ تاہم اس کے نتیجے میں 1960ء میں وجود میں آنے والا سندھ طاس معاہدہ آج بھی قائم ہے، مگر اس سے کبھی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ ’یہ تنازع محض ایک انجینیرنگ کا سوال نہیں کہ جس کا کوئی تکنیکی جواب ہو، بلکہ دریا کے پانی تک رسائی اور اس کے غلط استعمال کرنے کی صلاحیت نے خطے میں ریاستی طاقت کے ایک اہم حصے کو قائم کیا۔

60 برس بعد ہندوستانی حکومت اب بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت وہ پاکستان میں دریا کا پانی بہنے کی اجازت تو دے سکتا مگر انڈس بیسن کے دریاؤں پر خودمختاری کے دعوے کو ترک کرنے سے انکاری ہے۔

مزید پڑھیے: 2018ء میں پانی کے شعبے میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا؟

1960ء میں چین دُور دراز ہمالیہ کے ناقابلِ رسائی حصے میں تھا۔ آج پاکستان میں زراعت میں جدت لانے کی چین کی اعلانیہ دلچسپی چین کو انڈس بیسن تک لے آئی ہے۔ سی پیک کے زرعی منصوبوں کی کامیابی کے لیے دریا کے پانی تک رسائی ناگزیر ہے۔ بنجر پاکستان چین کے کسی کام کا نہیں۔ دریا کے بالائی حصے کے وال کو ہندوستان کی جانب گھومانے کی بدخواہ کوشش کو چین ایک ناقابل قبول اشتعال انگیزی کی کوشش کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔

چین کے لیے قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھنے والی گوادر بندرگاہ سے اسے صرف بحر ہند کا نظارہ ہی نہیں ملتا بلکہ یہ چین کی میری ٹائم خواہشات کے لیے ایک لائٹ ہاؤس سے کم نہیں۔ صدر ژی جنگ پنگ یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ چین سمندر میں دلچسپی لے گا، اسے سمجھے گا، اور اسٹریٹجک بنیادوں پر سمندر کا انتظام سنبھالے گا اور میری ٹائم طاقت طاقت کے حصول کے لیے چین انتھک محنت اور زیادہ سے زیادہ کام کرتا رہے گا۔‘

اس مقصد کے حصول کے لیے پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این) 2030ء تک ’99 آبدوز، 4 چار ائیرکرافٹ بردار بحری جہاز، 102 ڈسٹرائر اور فریگیٹ جہاز، 26 کارویٹ، 73 پانی اور خشکی پر چلنے والے ایمفی بئیس شپ اور 111 میزائل کرافٹ‘ کو اپنے بحری قوت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آج سے 10 برس بعد چین کے پاس 415 بحری جہازوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری فوج ہوگی۔ جو بحر ہند کی پٹرولنگ کے علاوہ بھی بہت کچھ کرے گی۔ ممکن ہے کہ اس کا نام ہی بدل دے۔

صدیوں تک بھارت زمین کی حفاظت جیسی محدود ذہنیت میں مگن رہا ہے، لیکن اب اسے خیال آیا ہے کہ 3 ہزار 323 کلومیٹر شمال مغربی سرحد کے علاوہ وہ اتنی ہی غیر محفوظ 7 ہزار 516 کلومیٹرز پر محیط ساحلی پٹی بھی رکھتا ہے۔

ہندوستانی بحری فوج کی ’پہلی بار‘ اس قدر بڑی سطح پر ہونے والی حالیہ مشق سی وجل (Sea Vigil) دراصل ہندوستان کی جانب سے سمندر سے ہونے والے کسی بھی قسم کے حملے کے نتیجے میں دفاعی صلاحیت کے اظہار کے لیے کی گئی ہے۔ ہندوستان کے پاس نگرانی کی درست وجہ بھی ہے۔ اس کے پاس دفاع کرنے کو ممبئی کے جنوب میں مختلف ریاستوں پر مشمتل سمندر میں لٹکتا ہوا جزیرہ نما ایک بڑا زمینی حصہ بھی موجود ہے۔

کیا اگلی جنگ ہمالیہ سے پانی کی رسائی پر ہوگی؟ اور کیا اس کے نتیجے کا فیصلہ بحر ہند و چین کی سطح کے نیچے چھپی ایٹمی میزائل بردار آب دوزیں کریں گی؟


یہ مضمون 4 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں