شہباز شریف نے وزیراعظم کو ارکان الیکشن کمیشن کے نام تجویز کردیے

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2019
اپوزیشن لیڈر کا خط 7 صفحات پر متشمل ہے— فوٹو: ڈان نیوز /فائل
اپوزیشن لیڈر کا خط 7 صفحات پر متشمل ہے— فوٹو: ڈان نیوز /فائل

قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے الیکشن کمیشن کے ارکان سے متعلق خط پر وزیر اعظم کے خط کا جواب دے دیا اور اراکین کے نام بھی تجویز کردیے۔

شہباز شریف نے بلوچستان کے رکن کے لیے شاہ محمد خان جتوئی، چیف جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی اور محمد رؤف عطا ایڈووکیٹ کے نام تجویز کیے۔

انہوں نے سندھ کے لیے جسٹس (ر) عبدالرسول میمن، خالد جاوید، جسٹس (ر) نور الحق قریشی کے نام تجویز کیے۔

شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو 7 اپریل کو لکھا گیا جوابی خط 7 صفحات پر مشتمل ہے۔

‎شہبازشریف نے خط میں عمران خان کو ڈئیر پرائم منسٹر کے الفاظ سے مخاطب کیا اور السلام علیکم سے بات کا آغاز کیا۔

اپوزیشن لیڈر کے خط میں کہا گیا کہ ‎عدالتی فیصلے کے مطابق سنجیدگی، اخلاص اور سچی کوشش سے اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے خط میں انتہائی احترام لیکن مربوط قانونی دلائل سے وزیراعظم کو جواب دیا اور ان کے مرتبے کو پوری طرح ملحوظ رکھا۔

شہباز شریف کی جانب سے بھیجے گئے خط میں عمران خان کی طرف سے ارسال کیے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‎وزیراعظم کے خط میں اپوزیشن لیڈر کو نہ سلام کیا گیا اور نہ ہی ان کے نام سے مخاطب کیاگیا تھا۔

‎وزیراعظم کے خط میں سپاٹ لہجہ اور زبان استعمال کی گئی تھی، جو دفتری یا سرکاری تقاضوں کے مطابق بھی نہیں تھا۔

‎اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ یکم فروری کو خط وزیرخارجہ کی طرف سے نہیں بلکہ وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری کی طرف سے بھجوایا گیا جو ‎کہ آئین کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 213(2) اے کی تشریح کی روشنی میں اسے ’مشاورت‘ نہیں کہا جاسکتا۔

خط میں کہا گیا کہ ‎وزارت خارجہ سے بھجوائے جانے والے خط میں متعلقہ آئینی شقوں کا حوالہ بھی نہیں دیاگیا اور ‎وزیراعظم کے تجویز کردہ ناموں کا بھی ذکر نہیں۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں موقف اپنایا کہ وزارت خارجہ سے بھجوائے گئے خط میں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے وزیرخارجہ یا وزارت خارجہ کو اختیار تفویض کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف کو الیکشن کمیشن اراکین کے نام تجویز کر دیے

انہوں نے کہا کہ ‎دستور کے تقاضے کے تحت مشاورت کسی اور ذریعے سے نہیں کی جاسکتی۔

شہباز شریف نے خط میں کہا کہ ‎اس عمل سے نظریں چرانا آئینی شقوں کا احترام نہ کرنے اور انہیں نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ‎ایڈیشنل سیکریٹری وزارت خارجہ کے خط میں دئیے گئے 6 نام آپ کے سیکریٹری کے خط میں دئیے گئے ناموں سے مختلف ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ‎مطلوبہ تیاری، غور اور اشتراک عمل کا نہ ہونا اس امر کا واضح ثبوت ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ ‎آپ کے سیکریٹری کے خط میں تحریر ہے کہ وزیراعظم نے اپنی فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ یہ خط آئین کے آرٹیکل 213 (2) اے کی خلاف ورزی ہے، یہ نام صرف اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد ہی بھجوائے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‎دونوں خطوط واپس لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ درست قانونی پوزیشن تسلیم کرلی گئی ہے۔

شہباز شریف نے خط میں کہا کہ ‎ہمارا یہی موقف رہا ہے کہ 213 دو اے کے مطابق زبانی یا تحریری رابطہ کے ذریعے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ذاتی شمولیت لازمی ہے اور ‎عدالت عظمی کے فیصلوں سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ‎آپ کا استدلال کہ اپوزیشن لیڈر ازخود مشاورت شروع کرسکتا ہے آئین کے برعکس ہے۔

شہباز شریف نےکہا کہ ‎آئین نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے تین نام بھجوائیں گے اور ‎آرٹیکل 254 مشاورتی عمل میں کسی بھی بہانے تاخیر کو قبول نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ‎تاخیر کی ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دی کہ الیکشن کمیشن ارکان کی ریٹائرمنٹ سے قبل مشاورتی عمل کیوں شروع نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، شہباز شریف سے صرف تحریری مشاورت کے خواہاں

خط میں کہا گیا کہ ‎سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ارکان 26 جنوری 2019ءکو ریٹائر ہوئے۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ ‎عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق مشاورت کو موثر، بامعنی، بامقصد، اتفاق رائے پر مبنی ہونا چاہئے جس میں کسی شکایت یا غیرشفافیت کی گنجائش نہ ہو۔

انہوں نے ‎کہا کہ چئیرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں بھی اپوزیشن لیڈر سے مطلوبہ مشاورت نہیں ہوئی تھی۔

‎شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق مشاورت سے مراد وہ عملی کوشش ہے جس میں ذہنوں میں بامقصد رابطہ ہو۔

خط میں کہا کہ ‎محض نام تجویزکردینا یا بھجوانا کافی نہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق ہمیں اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ ‎میری مخلصانہ امید ہے کہ ہم مزید قانونی تنازع سے بچتے ہوئے اتفاق رائے سے کمیٹی کو نام بھجواسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا آپ کے بھجوائے گئے ناموں پر غور کررہا ہوں،اس حوالے سے جلد رائے دوں گا لیکن اب تک‎بھجوائے گئے مجوزہ ناموں کی سی ویز موصول نہیں ہوئیں۔

مزید پڑھیں: دفتر خارجہ نے الیکشن کمیشن اراکین کی تقرری کیلئے نام تجویز کردیے

شہباز شریف نےخط میں کہا کہ ‎میرے بھجوائے ناموں پر آپ بھی غور فرمائیں۔

اپوزیشن لیڈر کے خط کے ساتھ مجوزہ افراد کی سی ویز بھی بھجوائی گئی ہیں۔

خیال رہے کہ یکم اپریل کو 2 ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کو خط ارسال کیا تھا جس میں الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے 2 اراکین کی تعیناتی کے لیے ناموں کی تحریری تجاویز طلب کی گئیں تھیں۔

4 صفحات پر مشتمل مراسلے میں وزیراعظم نے شہباز شریف کے ارسال کرہ خط میں اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کو مسترد کردیا۔

واضح رہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے نامزدگیوں کے مشاورتی طریقہ کار پر اعتراض کیا گیا تھا اور الزام عائد کیا گیا تھا کہ حکومت بلوچستان اور سندھ کے اراکین الیکشن کمیشن کےناموں کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کر کے آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے ارسال کردہ خط میں بلوچستان کے رکنِ الیکشن کمیشن کے لیے کوئٹہ کے کے سابق ڈسٹرک اینڈ سیشن جج امان اللہ بلوچ، وکیل منیر کاکڑ اور نگراں صوبائی حکومت کے سابق وزیر اور تاجر میر نوید جان بلوچ کے نام تجویز کیے گئے تھے۔

دوسری جانب سندھ کے رکنِ الیکشن کمیشن کے لیے وکیل خالد محمود صدیقی، سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس(ر) فرخ ضیا شیخ اور سابق انسپکٹر جنرل( آئی جی) سندھ اقبال محمود کے ناموں کی تجوزی دی گئی تھی۔

اس سے قبل حکومت کا اس وقت خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دفتر میں تعینات ایڈیشنل سیکریٹری کے ذریعے نام بھجوائے تھے جو وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اب تجویز کردہ ناموں سے مختلف تھے۔

خیال رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے اراکین الیکشن کمیشن عبدالغفار سومرو اور جسٹس (ر) شکیل بلوچ 26 جنوری کو عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور آئین کے تحت 12 مارچ تک ان کی جگہ نئے اراکین کو تعینات کیا جانا ضروری ہے۔

آئین کے مطابق اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں ای سی پی اراکین کے ناموں پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکے تو ناموں کے حتمی فیصلے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو فہرست ارسال کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں