اسد علی عباسی لندن میں مقیم فری لانس لکھاری ہیں۔
اسد علی عباسی لندن میں مقیم فری لانس لکھاری ہیں۔

برطانیہ میں واقع ایکواڈورین سفارتخانے کے اندر7 برسوں تک محصور رکھنے کے عمل کو جہاں جولین اسانج کے بنیادی انسانی حقوق پر وار کے برابر کہا جاسکتا ہے، وہیں وکی لیکس کے اس شریک بانی کی لندن میں گرفتاری اظہار اور پریس کی آزادی پر کاری ضرب سے کم نہیں۔

وکی لیکس کو اپریل 2010ء میں اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب اس نے امریکی فوج کی ایک خفیہ وڈیو نشر کی جس میں ’سال 2007ء میں اپاچے ہیلی کاپٹر سے بغداد میں کیے جانے والے ایک حملے کو دکھایا گیا تھا جس کے نتیجے میں بغداد میں رائٹرز کے نیوز عملے کے 2 افراد سمیت ایک درجن افراد مارے گئے تھے۔‘ 4 ماہ بعد اگست 2010ء میں سوئڈش دفترِ استغاثہ نے ریپ اور جنسی حملے کے الزامات پر اسانج کے گرفتاری وارنٹ جاری کیے۔

دسمبر 2010ء میں اسانج کو لندن میں گرفتار کیا گیا، وہ عدالت میں پیش ہوئے، ایک ہفتے تک زیرِ حراست رہے اور اس کے بعد ضمانت حاصل کرلی۔ 2012ء میں برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اسانچ کی سوئیڈن حوالگی کے خلاف اپیل رد کردی۔ جون 2012ء میں اسانج نے لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ چونکہ جولین اسانج غیرملکی سفارتخانے میں مقیم تھے اس لیے سوئیڈن نے ان کے خلاف مقدمات چھوڑ دیے گئے۔ یوں اسانج نے پورے 7 برس دیواروں کے اندر محدود ہو کر گزارے۔

ایکواڈور کے نومنتخب صدر لینن مورینو نے اسانج کی آزادیوں پر مزید پابندیاں عائد کردیں، انہیں نہ انٹرنیٹ، صحافت اور نہ ہی مہمانوں سے ملنے کی اجازت تھی۔

مورینو نے 11 اپریل 2019ء کو جولین اسانج کو مزید پناہ دینے سے انکار کردیا اور برٹش پولیس کو انہیں گرفتار کرنے کے لیے مدعو کیا۔ انہیں ’خود کو عدالت کے حوالے نہ کرنے‘، (جو کہ برطانیہ میں ایک قابل سزا جرم ہے) پر گرفتار کیا گیا۔

سفارت خانے سے باہر آجانے کے بعد اسانج کو امریکی وارنٹ پر ’مزید حراست‘ میں لیا گیا۔

وہ سفارت خانے سے باہر خود اپنے پیروں پر چل کر نہیں آئے تھے بلکہ پولیس اہلکار انہیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ جولین اسانج بہت کمزور، ناتواں، اور عمر رسیدہ نظر آئے۔ اپنی گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد وہ برطانوی میجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ وہ اس وقت بھی تحویل میں ہیں اور 2 مئی کو عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔

ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے جیسے ایک چھوٹے جرم کی سزا ایک سال تک قید کی صورت میں مل سکتی ہے۔ مگر اسانج کے حامیوں اور آزاد پریس اور اظہار آزادی کے حامیوں کو سب سے بڑا خدشہ یہ لاحق ہے کہ کہیں انہیں امریکا کے حوالے نہ کردیا جائے جہاں اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے ٹارچر نیلس ملزر کے مطابق انہیں ’حاصل انسانی حقوق، بشمول آزادی اظہار، منصفانہ مقدمہ لڑنے کے حق سے محروم کرنے کے علاوہ ان کے معاملے میں پابندی شدہ ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی حقیقی خدشہ موجود ہے۔‘

اسانج پر فرد جرم صحافت اور ہر اس شخص کے لیے باعثِ تشویش ہوگا جو پریس کی آزادی کو اہمیت دیتا ہے۔ فرد جرم کا اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے سابقہ امریکی اہلکار چیلسی میننگ کو خفیہ دستاویزات کی فراہمی کے لیے اکسایا اور یہ کہ انہوں نے اس پورے معاملے میں میننگ کا نام پوشیدہ رکھنے میں مدد فراہم کی۔ یہاں میں آپ کو اسانج پر لگا ایک اور الزام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ امریکی محکمہ انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ ’اسانج جانتے بوجھتے میننگ سے اس قسم کے خفیہ ریکارڈز حاصل کر رہے تھے تاکہ انہیں وکی لیکس کی ویب سائٹ پر شائع کیا جاسکے۔‘

تو کیا یہ کام صحافت کا حصہ نہیں ہے؟ معلومات کی کھوج اور ان کے ذرائع کی شناخت کا تحفظ کرنا صحافیوں کے لیے امرواجب ہوتا ہے۔ اگر جولین اسانج پر اس بات کا الزام لگتا ہے تو یہ تحقیقاتی صحافت کے طریقوں کو خطرے سے دوچار کرنے کے برابر ہوگا۔

اسانج پر لگا الزام کوئی نیا نہیں۔ ثبوت کا جائزہ لینے کے بعد اوباما انتظامیہ کے دنوں میں محکمہ انصاف اپنے اوپر پریس کی آزادی کے لیے خطرہ بننے کا الزام سہتے ہوئے جولین اسانج پر الزام لگانے کا جواز پیش نہ کرسکا تھا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ اسانج کے معاملے کی پیروی کرنے کے لیے ایک قدم اور آگے بڑھ چکی ہے۔ میننگ نے 7 برس قید میں گزارے اور انہیں 2017ء میں رہا کردیا گیا۔ لیکن وکی لیکس کے خلاف گواہی دینے سے انکار کرنے پر میننگ کو ایک بار پھر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

اسانج کی گرفتاری اور ان کی ممکنہ حوالگی پریس کی آزادی کے لیے کس قدر معنی خیز ہے؟

پہلی بات، یاد رہے کہ اسانج ایک آسٹریلین ہیں (ان کی ایکواڈور کی شہریت منسوخ کی جاچکی ہے) نہ کہ امریکی شہری ہیں۔ اگر اسانج کو امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے تو یہ عمل دنیا بھر کے صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف ایک سنیگین مثال قائم کرنے برابر ہوگا۔ تصور کریں کہ اگر سعودی عرب میں موجود ایک پاکستانی صحافی کو امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے تو کیا پاکستان کے عوام اس اقدام کی حمایت کریں گے؟ یا سوچیں اگر برطانیہ میں بیٹھ کر روسی حکومت کے خلاف دستاویزات شائع کرنے والے صحافی کو روس کے حوالے کردیا جائے؟ تو کیا برطانیہ اور امریکا میں موجود رپورٹر حضرات اس عمل کی حمایت کریں گے؟ جواب ہے نہیں۔ مگر اسانج کی ممکنہ حوالگی اس قسم کی سیاسی چالوں کے لیے ایک نئی مثال قائم کرنے کے مترادف ہے.

دوسری بات، اسانج ایک صحافی (چند انہیں ایک کارکن کی حیثیت بھی دیتے ہیں) اور ناشر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکا نے اسپیونیج ایکٹ (Espionage act) کے تحت ذرائع اور غلط کاموں کی نشاندہی کرنے والوں پر فرد جرم عائد کیا اور اب یہ ملک ایک صحافی پر فرد جرم عائد کرنا چاہتا ہے۔ اگر ناشرین اور صحافیوں پر فرد جرم عائد ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں اور ایڈیٹر صاحبان کو اپنا کام کرنے پر ملزم ٹھہرایا جاسکتا ہے، جو ایک فعال جمہوریت کی روح کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے۔

تیسری بات، اسانج اور میننگ پر عراق میں امریکی جنگی جرائم دنیا کے سامنے لانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کام میں تو انہیں مدد فراہم کی جانی چاہیے تھی۔ نوم چوسکی نے اسانج کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ’نہ تو ہیرو ہیں اور نہ شیطان، بلکہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اپنی سِوک ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔‘

جولین اسانج کے کام میں رکاوٹ بننے پر کیا حکام سے حساب کتاب نہیں لینا چاہیے؟

یہ مضمون 14 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں