رجب طیب اردوان کی جماعت 25 سال بعد استنبول میں ناکام

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2019
اپوزیشن جماعت کے اکرم امام اوغلو  نے 0.2 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی — فوٹو: انادولو ایجنسی
اپوزیشن جماعت کے اکرم امام اوغلو نے 0.2 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی — فوٹو: انادولو ایجنسی

ترک صدر رجب طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ( اے کے پی) کی جانب سے استنبول میں دوبارہ انتخاب کروانے کی اپیل التوا کا شکار ہونے کے باوجود اپوزیشن کی مرکزی جماعت کے امیدوار کو میئر قرار دے دیا گیا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 31 مارچ کو ترکی میں ہونے والے مقامی انتخابات کے حتمی نتائج میں اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلزپارٹی (سی ایچ پی) نے ترکی کے معاشی حب میں طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے 25 سال اقتدار کا خاتمہ کردیا۔

استنبول میں اے کے پی کی ناکامی اردوان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ انہوں نے 1990 میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور بالآخر 2002 میں ان کی جماعت اقتدار میں آئی تھی۔

خیال رہے کہ مقامی الیکشن کے بعد ترکی کی کرنسی کی قدر میں کمی آئی ہے تاہم کرنسی گزشتہ روز مستحکم رہی۔

مزید پڑھیں: مقامی انتخاب میں اردوان کو دھچکا، انقرہ میں شکست

اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلزپارٹی کے اکرم امام اوٖغلو نے 2 ہفتے سے جاری چیلنجز اور ووٹوں کی گنتی کے بعد میئر قرار دیے جانے پر استنبول کے ایک کروڑ 60 لاکھ شہریوں کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا۔

استنبول میونسپلٹی کی عمارت میں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ ہم نے کبھی جمہوریت اور حقوق کی جنگ میں ہمت نہیں ہاری‘۔

اکرم امام اوغلو نے کہا کہ ’ ہم اس شہر کی تمام ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، ہم فوری طور پر خدمات سرانجام دینا شروع کریں گے‘۔

حتمی نتائج کے مطابق اکرم امام اوغلو نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدوار اور سابق وزیراعظم بینالی یلدرم سے13 ہزار زائد یا 0.2 فیصد زائد ووٹ حاصل کیے۔

16 اپریل کو 16 روز سے جاری اپیل اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد اے کے پی نے ہائی الیکشن بورڈ ( وائے ایس کے) کو استنبول میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ترک صدر کی اتحادی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے بھی گزشتہ روز یہی درخواست کی تھی۔

دوسری جانب اکرم امام اوغلو نے کہا کہ ’ ہم اس وقت جاری مراحل سے آگاہ ہیں ،ہم پرامید ہیں کہ متعلقہ حکام اس مرحلے کو انتہائی حساس اور منصفانہ طریقے سے مکمل کریں گے‘۔

تاہم اے کے پی اور ایم ایچ پی کی جانب سے بارہا کیے جانے والے چیلنجز کی وجہ سے اپوزیشن جماعت کے حامی مایوسی کا شکارر ہے اور گزشتہ ہفتے کے اختتام میں استنبول میں ڈربی میچ کے دوران فٹ بال اسٹیڈیم میں دونوں جماعتوں کے حامیوں میں میئر کے امیدوار پر جھڑپ ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طیب اردوان کا مسلمانوں، عیسائیوں کے درمیان متنازع مقام کو مسجد بنانے کا فیصلہ

اے کے پی کے ڈپٹی چیئرمین نے اپنی جماعت کی جانب سے دوبارہ ووٹنگ کے مطالبے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت زیادہ بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘ ہم کہہ رہے ہیں کہ اس میں منظم طریقے سے دھوکہ دہی، غیرقانونی کارروائی اور جرائم کیے گئے‘۔

دوسری جانب سی ایچ پی کے ڈپٹی چیئرمین نے ردعمل میں کہا کہ ’ اے کے پی کی اپیل میں دوبارہ انتخابات کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز، اطلاع یا شواہد نہیں دیے گئے، اس کا کوئی قانونی جواز ہی نہیں ہے، آپ استنبول کے انتخاب کو نقصان پہنچانے کے لیے اپیل کا حق استعمال کررہے ہیں‘۔

خیال رہے کہ اردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی استنبول میئر کی دوڑ میں ناکام ہوگئی جبکہ ان کی جماعت نے میونسپل کونسل کی اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

اے کے پی نے دوبارہ انتخاب کی اپیل میونسپل کونسلز نہیں بلکہ صرف میئر کے الیکشن کے دائر کی ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 18 اپریل 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں