ایک ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 196 فیصد تک اضافہ

19 اپريل 2019
پہلے 9 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بتدریج 29 فیصد کمی دیکھنے میں آئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
پہلے 9 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بتدریج 29 فیصد کمی دیکھنے میں آئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق مارچ میں ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں فروری کے مقابلے میں ماہانہ بنیاد پر 196 فیصد اضافہ ہوا۔

مرکزی بینک کی جانب سے جاری حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ فروری کے 27 کروڑ80 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 82 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا۔

تاہم مجموعی طور پر رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بتدریج 29 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، جس کی بڑی وجہ درآمدات کو محدود کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 4.4 فیصد کمی

اسی عرصے میں جولائی سے مارچ کے دوران خسارہ 29.4 فیصد یا 4 ارب ڈالر کم ہوا اور وہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 13 ارب 58 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 9 ارب 58 کروڑ ڈالر رہا۔

تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے باوجود تجارتی خسارے کا حجم 3 ارب 84 کروڑ ڈالر کے طور پر زیادہ رہا، موجودہ حکومت کی جانب سے جاری مالی سال کے دوران برآمدی سیکٹر کو مختلف مواقع کی پیش کش کرنے کے باوجود ملک کی برآمدات میں بہتری میں ناکامی رہی۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 9 ماہ کے جائزے کے دوران برآمدات میں معمولی 26 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک کا اضافہ دیکھا گیا۔

اس کے علاوہ تیسری سہ ماہی کے اختتام پر برآمدات میں کمی ہوئی اور یہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے 22 ارب 22 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 21 ارب 95 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہی۔

دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران حکومت ملک کی ملک درآمدات کو کم کرنے میں کامیاب نظر آئی اور یہ اس عرصے کے دوران 45 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 49 ارب 63 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اشیا اور سروسز دونوں کی درآمدات میں کمی ہوئی اور یہ بالترتیب کم ہوکر 39 ارب 31 کروڑ 40 لاکھ اور 6 ارب 47 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کا تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا

واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ معیشت کے لیے چیلنج ثابت ہوا اور موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالے کے بعد اس فرق کو ختم کرنے کے لیے اپنی تمام توجہ اس پر مرکوز کی اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ کے لیے بیل آؤٹ پروگرام کے مذاکرات کے دوران حکومت نے دوست ممالک اور کمرشل بینکوں سے بڑی تعداد میں امداد حاصل کی۔

تاہم حکومت کی جانب سے باہمی اور کثیر جہتی قرضوں کے حصول اور برآمدات کو بڑھا کر خسارے کو کم کرنے کا منصوبہ اب تک کامیاب نظر نہیں آتا، اس کے علاوہ حکومت کو 2014 میں شروع کیے گئے یوروبانڈ کی پختگی کے لیے اپریل میں قرض کی خدمات کی مد میں ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی پڑی جبکہ رواں سال کے اختتام تک ایک ارب ڈالر کے سکوک کی پختگی کے لیے مزید ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔


یہ خبر 19 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں