طالبان سے امن مذاکرات کے التوا پر مایوسی ہوئی، زلمے خلیل زاد

19 اپريل 2019
تمام فریقین سے اصرار کرتا ہوں کہ شرکا کی فہرست کو قبول کریں— فوٹو: اے پی / فائل
تمام فریقین سے اصرار کرتا ہوں کہ شرکا کی فہرست کو قبول کریں— فوٹو: اے پی / فائل

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے قطر میں طالبان اور افغان وفد کے درمیان مذاکرات ملتوی ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ قطر میں افغان طالبان مذاکرات میں تاخیر ہونے پر شدید مایوس ہوں ‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ بات چیت ہی سیاسی مفاہمت اور دیر پا امن کا راستہ ہے اور رہے گا، اس کا کوئی متبادل نہیں، میں تمام فریقین سے اصرار کرتا ہوں کہ وہ شرکا کی فہرست کو قبول کریں جو تمام افغان شہریوں کے لیے بات کررہی ہے، کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں تیار ہوں‘۔

مزید پڑھیں: افغان وفد پر طالبان کے اعتراض کے بعد امن مذاکرات ملتوی

خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومتی وفد کے اراکین کی تعداد پر اعتراض کے بعد دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ملتوی کردیے گئے۔

افغانستان میں 17 سالہ طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کی سخت کوششوں کے بعد طالبان افغان حکومتی وفد سے بات چیت پر آمادہ ہوئے تھے۔

افغان حکومت نے 16 اپریل کو طالبان سے ملاقات کرنے والے 250 افراد کی فہرست شائع کی تھی، جس میں افغان صدر اشرف غنی، چیف آف اسٹاف عبدالسلام رحیمی اور انتخابات میں ہارنے والے رہنما امراللہ صالح سمیت افغان انٹیلی جنس کے سابق سربراہ بھی شامل تھے۔

فہرست میں افغانستان کے قبائلی عمائدین، نوجوانوں کے رہنما اور 52 خواتین بھی شامل تھے۔

تاہم طالبان نے اس طویل فہرست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اتنے زیادہ لوگوں سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کابل کی فہرست بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ خلیجی ممالک میں ہونے والی کانفرنس ہے نہ کہ کابل کے کسی ہوٹل میں ہونے والے کسی کی شادی کی تقریب کا دعوت نامہ‘۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا افغان وفد کی طویل فہرست پر اعتراض، امن مذاکرات مشکلات کا شکار

بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی نے 17 اپریل کو تھا کہ افغان وفد میں کچھ حکومتی اراکین ذاتی حیثیت میں شرکت کررہے ہیں۔

لیکن اس گروہ میں افغان سیاست کی اہم شخصیات شامل نہیں جو فورسز کی وجہ سے ستمبر میں صدارتی انتخابات سے قبل اشرف غنی کے ساتھ شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔

اس بارے میں ایک سینئر حکومتی کا کہنا تھا کہ افغانوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

افغان حکام کے مطابق قطر نے 243 افراد کی فہرست پیش کی تھی جو اشرف غنی کی 250 افراد کی فہرست سے مختلف تھی۔

افغان وفد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونا تھا لیکن کابل میں موجود افغان حکومت کے عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ اجلاس ابھی کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات میں تبدیلی کی جارہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان مذاکرات: افغان حکومتی نمائندوں کی بڑے وفد میں شمولیت کا امکان

اس بارے میں کابل میں موجود ایک مغربی سفارتکار نے بتایا کہ افغان وفد کو جمعرات کو قطر کے دارالحکومت روانہ ہونا تھا تاہم انہیں معلوم ہوا کہ ان کا دورہ منسوخ کردیا گیا ہے اور نئی تاریخوں پر بات چیت جاری ہے۔

سفارتکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حکومت کو یہ اجلاس منعقد کرنے کے لیے وفد میں تبدیلی کرنی پڑے گی‘۔ اس بارے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان کے رہنما افغان وفد کے حجم اور اس میں اراکین کے شمولیت کے حوالے سے معترض تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفد میں کچھ ایسے اراکین بھی شامل تھے جو اراکین کی اس فہرست سے مختلف تھے جس پر اتفاق ہوا اور اس میں افغان حکومت کے اہلکار بھی موجود تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں