بشیر کا خیال ہے کہ یونہی موٹر سائیکل چلاتے چلاتے اس کی عمر گزر جائے گی اور وہ کبھی بھی اس سے زیادہ ترقی نہیں کر پائے گا حالانکہ آج سے 5 سال پہلے اس کے پاس صرف ایک سہراب سائیکل تھی۔

وہ بچپن سے خواب میں خود کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھتا آرہا تھا، خواب میں اس کا اپنا ایک عالیشان بنگلہ ہے، جس کے گیٹ پر ہمہ وقت 2 مستعد نوجوان بندوقیں اٹھائے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جب بشیر گھر آتا ہے تو وہ اسے سیلوٹ مارتے ہیں اور بھاگ کر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہیں، بشیر کا بریف کیس تھام کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے مسائل بشیر کو بتاتے ہیں۔ خواب میں بشیر کئی بار ان کی تنخواہ اور بچوں کے اخراجات کے مسائل بھی حل کرچکا ہے۔

وہ ایک 38 سال کا، ہر وقت سستی سگریٹ پیتا اور دن رات کھانستا ہوا آدمی ہے جس کے 4 بچے اور ایک بیوی ہے۔ اس کی بیوی کا شادی کے 12 سال بعد بھی یہی ماننا ہے کہ اگر 12 برس پہلے اس کے والدین اس کے لیے دبئی میں مقیم ویلڈر کا رشتہ منظور کرلیتے تو وہ خوش رہتی لیکن اب وہ بشیر کی بیوی ہے اور ناخوش ہے۔

بشیر صبح سویرے اٹھتا ہے لیکن اس بات کو یوں لکھنا چاہیے کہ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا جو 6 ماہ کا ہے، منہ اندھیرے ہی رو رو کر اسے جگا دیتا ہے۔ وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے سے باہر نکلتا ہے اور سگریٹ سلگا کر واش روم میں گھس جاتا ہے۔

اس کے 2 بچے سستے سے پرائیوٹ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اسے ڈر تھا کہ سرکاری اسکول سے پڑھ کر وہ بھی بشیر کی طرح کم آمدنی والے آدمی نہ بن جائیں تو جس قدر ممکن ہو انہیں انگریزی سیکھنی چاہیے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انگریزی کے بغیر دنیا میں ترقی ممکن نہیں۔ اس کے بچے بالترتیب دوسری اور تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں لیکن انہیں ابھی تک انگریزی میں ایک جملہ تک بولنا نہیں آیا، اور یہ بات بشیر کو پریشان رکھتی ہے۔ وہ آئے روز اپنے بچوں کو سامنے بٹھا کر ان سے انگریزی میں نام پوچھتا ہے لیکن وہ چپ رہتے ہیں، اور اب انہیں چپ رہنے کی سزا میں ایک گالی اور تھپڑ بھی پڑتا ہے۔

’کمبختو! تم یونہی غریب ہی رہنا‘

وہ بچوں کو اسکول چھوڑتا ہوا دکان پہنچتا ہے جہاں وہ سیلزمین کی نوکری کرتا ہے۔ دکان سے 5 بجے اسے چھٹی ملتی ہے، لیکن دکان کے مالک کا خیال ہے کہ بشیر کئی ماہ سے توجہ کے ساتھ اپنا کام نہیں کر پارہا۔ بعض اوقات گاہک اس سے مانگتے کچھ ہیں اور وہ دیتا کچھ ہے۔ کئی گاہکوں نے دکان مالک سے بشیر کی شکایت بھی کی ہے۔ چونکہ بشیر یہ نوکری چھوڑ نہیں سکتا اس لیے ہر بار معذرت کرکے آگے ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کرواتا رہتا ہے۔

سارا دن چہرے پر نقلی مسکراہٹ سجا کر رکھنے کی وجہ سے اس کے جبڑے درد کرنے لگ جاتے ہیں۔ دکان سے چھٹی کے بعد وہ ایک اور کمپنی میں آن لائن اشتہارات پوسٹ کرنے کا کام کرتا ہے، جہاں سے اسے رات 10 بجے چھٹی ملتی ہے۔

اس کی آپٹک نروز پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی نظر کمزور ہوتی جارہی ہے۔ لیکن چونکہ اس کے پاس مکمل علاج کے پیسے نہیں، اس لیے وہ ہر سال نئے نمبر کا چشمہ خرید لیتا ہے۔

دوسری نوکری میں جب وہ کمپیوٹر پر کام کررہا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں، جس سے بچنے کے لیے وہ ہر تھوڑی دیر بعد عرق گلاب کے چند قطرے آنکھوں میں ڈالتا ہے، لیکن کچھ دیر بعد آنسو دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے پاس ایک سفید رومال رکھتا ہے، اور ڈیوٹی ختم ہونے تک رومال آنسوؤں سے تر ہوجاتا ہے جسے وہ قمیض کی سامنے والی جیب میں رکھتا ہے تاکہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہوا سے سوکھ جائے۔

وہ آج کل بہت پریشان ہے۔

بشیر کے بچپن کا دوست سلیم کئی سال پہلے امریکا جاچکا ہے، اب چونکہ اشتہارات لگاتے ہوئے بشیر کو انٹرنیٹ آن رکھنا پڑتا ہے اس لیے بار بار سلیم اس سے رابطہ کرنے کے لیے اسکائپ کال کرتا رہتا ہے۔

بشیر چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے اسکائپ اور فیس بک کو بند کردے، تاکہ امریکا سے کوئی بھی خبر نہ آسکے۔ بشیر ایسا اس لیے چاہتا ہے کیونکہ وہ امریکا سے آنے والی خوشگوار خبروں سے تنگ آچکا ہے۔ سلیم اکثر اسے بتاتا ہے کہ کس طرح وہ صبح سویرے اٹھ کر سیر کو جاتا ہے تو پرندے چہچہارہے ہوتے ہیں، شام کو بچوں کے ساتھ باغ میں سیر کرنے جاتا ہے تو پھول کھلے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر سلیم کی طبعیت باغ باغ ہوجاتی ہے۔ وہ ایسی ویڈیوز بھی بھیجتا ہے جن میں اس کے بچے اس کی گوری بیوی کے ساتھ فَرفَر انگریزی میں گفتگو کررہے ہوتے ہیں، اور پھر بشیر کو اپنی بیوی بچے یاد آجاتے ہیں، اور وہ دُکھی ہوجاتا ہے۔

چند روز قبل سلیم نے اپنی گاڑی کی تصویر دکھائی، یہ بالکل وہی گاڑی تھی جو بشیر کئی سالوں سے اپنے خواب میں دیکھتا آرہا تھا۔ اس تصویر کو دیکھ کر بشیر کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنا اسکائپ اکاؤنٹ ہی ختم کردیا۔

ایک صبح جب بشیر کا 6 ماہ کا بیٹا رو رو کر اسے اٹھاتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے باوجود اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

وہ چلا کر بیگم کو آواز دیتا ہے اور مدت بعد پہلی مرتبہ صبح اٹھ کر وہ سگریٹ نہیں پیتا۔

یہ بشیر کے اندھا ہوجانے کا پہلا دن ہے۔

وہ بچوں کو اسکول بھی نہیں لے کر جاسکا اور صحن میں سر جھکائے بیٹھا سوچ رہا ہے کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ زندگی اتنی آسان نہیں کہ بس موٹرسائیکل چلاتے ہوئے گزر جائے۔

اس کی بیگم باورچی خانے کی کھڑکی سے اسے دیکھ رہی ہے اور روتے ہوئے سوچ رہی ہے کہ اس کے والدین نے 12 برس پہلے کتنا غلط فیصلہ کیا تھا کہ اس کی شادی مستقبل میں اندھا ہوجانے والے آدمی سے کردی تھی۔

اسی دوران بشیر کا بڑا بیٹا انور اس کے پاس آکر اس کا ہاتھ تھام کر کہتا ہے

'ابا مجھے انگریزی آگئی ہے، میں سناؤں؟'

My Name is Anwar and my father name is Basheer

ایک آنسو بشیر کی اندھی آنکھوں سے نکل کر زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔

'میرے بچے! تم اب بڑے ہوگئے ہو، تمہیں کچھ اور کرنا ہوگا' یہ کہہ کر وہ بیٹے کو گلے لگا کر دھاڑیں مار کر رونے لگ جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

Kashif Salik Apr 21, 2019 10:34pm
Itni tension kay dinon mein kuch pur umeed afsaanay likhoo dear. Very depressing.
Syed Ali Apr 22, 2019 12:08am
Our leaders should read this short story as real life story of millions of Pkistanis.
Shadaab Apr 22, 2019 01:15am
Bashir ki wife q nahi kuch kamati thi? Ghar me hi kuch kr leti. Anwar ko to job ki zarurat nahi thi.
Tanveerkhoso Apr 22, 2019 02:30am
کافی خوبصورت تحریر ہے اور ہمارے معاشرے کی خوب عکاسی بھی کرتی ہے
Mumtaz Ahmed Shah Apr 22, 2019 05:36am
An excellent article and enjoyed.(Texas)
Ahmed Apr 22, 2019 10:23am
bohat achi tehreer hay ye har us ghar ki kahani hy jahan log achi zindagi guzarnay kay lye anthak mehnat kartay hain laykin zindagi kay akhri ayam main intahai kasmpursi ki halat main rehtay hain.
ayaan Apr 23, 2019 08:41am
moral of the story: always be grateful for what you have. dont try to compare yourself with others this story has underlying massage that a person is complaining for his broen shoes and somewhere anoher person is happy without feet. So dont be stressfull over life difficulties ,
صوفیہ کاشف Apr 23, 2019 03:31pm
بہت خوبصورت تحریر زندگی کی ،مفلسی کی،اور غیر ہموار معاشرے کی تلخیص سے بھری۔
bilal Apr 23, 2019 04:33pm
@ayaan i like your comment