مذاکرات کے اگلے دور میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر توجہ مرکوز ہوگی، طالبان

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2019
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور کا آغاز جلد متوقع ہے — فائل فوٹو: اے پی
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور کا آغاز جلد متوقع ہے — فائل فوٹو: اے پی

دوحہ: طالبان کے ایک سینئر رکن نے کہا ہے کہ آنے والے دور میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے ٹائم فریم پر توجہ مرکوز ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک انٹرویو میں طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ گزشتہ مذاکرات میں دونوں فریقین کی جانب سے مکمل انخلا پر اتفاق دیکھا گیا، جس میں اب صرف تفصیلات وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ’امریکا سے مذاکرات کے گزشتہ دور میں ہم نے ان سے افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کو باہر نکالنے پر اتفاق کیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: افغان وفد پر طالبان کے اعتراض کے بعد امن مذاکرات ملتوی

وہ کہتے ہیں کہ اس انخلا کے بدلے میں طالبان نے افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنے یا اسے دیگر ممالک پر حملوں کے استعمال ہونے سے روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ معاملات پر اب بھی تبادلہ خیال ہونا ہے اور یہ مذاکرات کے اگلے دور میں ہوگی اور اس میں ملک سے فورسز کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور دیگر تفصیلات کے بارے میں بات چیت ہوگی‘۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور دوحہ میں آئندہ ہفتوں میں متوقع ہے لیکن باضابطہ طور پر اس کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے حالیہ دور کے اختتام پر ہی ’حقیقی پیش رفت‘ معلوم ہوسکے گی لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کب امریکا اور دیگر ممالک افغانستان چھوڑ سکتے ہیں اس پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ’مسودے میں‘ انسداد دہشت گردی، طالبان اور فوجیوں کے انخلا کی ضمانت، جنگ بندی اور انٹرا افغان مذاکرات کے اگلے مرحلے کی تجویز دی گئی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس پر ابھی کچھ حتمی نہیں ہے۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ جب تک تمام چیزوں پر اتفاق نہیں کیا جاتا تب تک کسی پر بھی اتفاق کا نہیں کہہ سکتے۔

خیال رہے کہ طالبان اور افغان سیاست دانوں اور نمائندگان کے درمیان ہفتے کے اختتام پر ملاقات طے تھی جسے کابل کی 250 افراد پر مشتمل وفد کی فہرست کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا، یہ کانفرنس امریکا-طالبان امن مذاکرات سے علیحدہ ہونی تھی۔

سہیل شاہین نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات کی، یہ مقام افغان امن عمل کے لیے مرکز بن چکا ہے اور اس نے طالبان کے سیاسی دفتر کی بھی میزبانی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان سے امن مذاکرات کے التوا پر مایوسی ہوئی، زلمے خلیل زاد

تاہم کابل کے احتجاج کے بعد یہ سہولت بند کردی گئی تھی کیونکہ ان کا موقف تھا کہ طالبان اس دفتر کو غیر قانونی سفارتخانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارے پاس کوئی دفتر نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے بیانات کو جاری کرنے، ذرائع ابلاغ کو امن سے متعلق معلومات دینے کے لیے پریس کانفرنس کرنے اور اپنے عوام سے روزانہ کی بنیاد پر بات چیت کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں