سری لنکن صدر نے دفاعی سربراہان سے استعفیٰ طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2019
حکام کے مطابق حملوں کے حوالے سے خفیہ اطلاعات ملی تھیں—فوٹو:اے ایف پی
حکام کے مطابق حملوں کے حوالے سے خفیہ اطلاعات ملی تھیں—فوٹو:اے ایف پی

سری لنکا کے صدر متھری پالا سریسینا نے ایسٹر دھماکوں کے حوالے سے ممکنہ انٹیلی جنس اطلاعات پر غفلت برتنے پر سیکریٹری دفاع اور پولیس چیف سے استفعیٰ مانگ لیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے صدر متھری پالا سریسینا نے ایک روز قبل ٹی وی خطاب میں واضح کیا تھا کہ انہوں نے 24 گھنٹوں کے اندر اندر دفاعی فورسز کے سربراہان کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

کولمبو میں بم دھماکوں میں 350 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی تاہم حکام کی جانب سے ان کے ملوث ہونے پر تذبذب کا اظہار کیا گیا تھا۔

سری لنکن حکام کا کہنا تھا کہ حملوں کے لیے غیرملکی دہشت گردوں کی جانب سے مالی اور دیگر تعاون حاصل تھا۔

مزید پڑھیں:سری لنکا میں 8 بم دھماکے، ہلاکتیں 290 تک پہنچ گئیں

سری لنکا کے نائب وزیردفاع نے کہا کہ حملہ آور انتہائی پڑھے لکھے اور اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔

رووان ویجیاردھنے کا کہنا تھا کہ 'وہ تعلیم یافتہ تھے جن میں سے ایک کے پاس قانون کی ڈگری تھی اور دیگر نے برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلیم حاصل کی تھی'۔

انہوں نے ملک کی سیکیورٹی کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسٹر دھماکوں سےقبل چند انٹیلی جنس یونٹس کے پاس ممکنہ اطلاعات تھیں۔

امریکی سفیر علینا ٹیپلیٹز نے صحافیوں کو بتایا کہ 'یہ واضح ہے کہ نظام میں ناکامی ہے تاہم امریکا کو ان حملوں کے حوالے سے کوئی رپورٹ نہیں تھیں'۔

یہ بھی پڑھیں:داعش نے سری لنکا میں بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی

انہوں نے سرکاری اطلاعات پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکام خود واضح نہیں ہیں اور اس حوالے متضاد بیانات دے رہے ہیں، ایک طرف پولیس ترجمان رووان گناسیکارا نے کہا کہ 9 سے زائد خود کش حملہ آور تھے۔

خیال رہے کہ گناسیکارا نے کہا تھا کہ ایک خود کش حملہ آور خاتون تھیں جو دوسرے بمبار کی اہلیہ تھیں اور اب تک 60 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی ایجنٹس اور امریکی فوجی عہدیداروں کی ایک ٹیم تفتیش میں مدد کررہی ہے۔

سری لنکن حکام کہہ چکے ہیں تمام خود کش حملہ آوروں کا تعلق سری لنکا سے ہی تھا۔

رووان ویجیاردھنے کا کہنا تھا کہ 'اس وقت تفتیش میں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا حملوں میں کسی عالمی تنطیم کا براہ راست تعلق تھا یا نہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں