ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی، سانحہ ساہیوال کے متاثرین کا احتجاج کا اعلان

مقتول خلیل احمد کے بھائی کے مطابق ساڑھے 3 ماہ کے بعد بھی ان کے جائز مطالبات پورے نہیں ہوسکے — فائل فوٹو/ڈان نیوز
مقتول خلیل احمد کے بھائی کے مطابق ساڑھے 3 ماہ کے بعد بھی ان کے جائز مطالبات پورے نہیں ہوسکے — فائل فوٹو/ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کے رخصت پر جانے کے باعث سانحہ ساہیوال میں ملوث 6 گرفتار ملزمان پر آج (بروز جمعہ) بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ ساہیوال کی سماعت ہوئی، اس موقع پر ملوث 6 گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

سانحہ ساہیوال کو رونما ہوئے ساڑھے 3 ماہ کا عرصہ گزر چکا لیکن ابھی تک متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا اور گرفتار 6 ملزمان پر آج (بروز جمعہ) بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد کلیم خان کے رخصت پر ہونے کی وجہ سے گرفتار ملزمان کو سیشن جج ساہیوال کی عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے مقدمہ کی سماعت کل (بروز ہفتہ) تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: لاہور ہائی کورٹ کا جوڈیشل کمیشن بنانے پر حکومت سے جواب طلب

واضح رہے کہ ملزمان کے وکلا کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سیکشن 23 اے کی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل ساہیوال میں قید ہیں اور کل (بروز ہفتہ) ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔

سانحہ ساہیوال میں گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں میں صفدر حسین، سیف اللہ عابد، احسن خان، رمضان، حسنین اکبر اور ناصر وٹو شامل ہیں اور ان کے خلاف تھانہ یوسف والا میں مقدمہ درج ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز سانحہ ساہیوال میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کرکے قتل کیے جانے والے خلیل احمد، ان کی اہلیہ، کم عمر بیٹی بھی شامل تھیں، کے اہل خانہ نے ہفتے کے روز پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کا اعلان کردیا۔

مقتول کے بھائی جلیل نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس نے انہیں سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ان کے 3 جائز مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی کے بعد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال پہلا مشکوک مقابلہ نہیں، ذمہ داروں کو سزا دینا ہوگی

خلیل احمد کے اہل خانہ کی جانب سے حکام سے کیے جانے والے مطالبات میں سانحہ ساہیوال کے واقعے کی عدالتی تحقیقات، سی ٹی ڈی سے کیس کو لاہور منتقل کرنا اور مقتولین کے اہل خانہ کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر کو منسوخ کرنا بھی شامل ہے۔

جلیل احمد کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ 'ساڑھے 3 ماہ گزر جانے کے باوجود سرکاری حکام کی جانب سے ہمارے مطالبات پر کوئی خاص رد عمل نہیں دیا گیا'۔

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ’والدین کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی‘

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست شامل تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن ا س کے باوجود اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

یاد رہے کہ واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ’ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا‘۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کی میت کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: متاثرہ خاندان کا جے آئی ٹی کی تفتیش پر عدم اطمینان

ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں رکھی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

بعدازاں پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

دوسری جانب سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ ذیشان کے حوالے سے انہوں نے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

خیال رہے کہ صوبائی وزیر راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں