لکھاری معیارِ صحت اور مریض کے تحفظ سے وابستہ امریکا سے سندیافتہ پروفیشنل ہیں۔
لکھاری معیارِ صحت اور مریض کے تحفظ سے وابستہ امریکا سے سندیافتہ پروفیشنل ہیں۔

بمشکل 9 ماہ کی نشوا گزشتہ ماہ طبی غلطی کے باعث دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اسے مرتکز برق پاش (concentrated electrolyte) کا انجیکشن لگایا گیا تھا۔ یہ انجیکشن عملے کے ایک ایسے رکن نے لگایا تھا جسے مریضوں کو ادوایات دینے یا انجیکشن لگانے کی تو اجازت دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اعلیٰ انتباہ والی ادویات دینا یا انجیکشن لگانا تو دور کی بات ہے۔

نشوا کے والدین کا جذباتی ردعمل اور اس کے والد کی جانب سے اس قسم کے سانحات کی روک تھام کے لیے التجائیں کرنا فطری عمل ہے۔ سول سوسائٹی نے مدد فراہم کی اور الیکٹرانک میڈیا نے کیس کو ہر سطح پر اٹھایا، جس کے نتیجے میں ڈیوٹی افسر، نرس ان چارج اور ہسپتال کے منتظم کو گرفتار کرلیا گیا۔ نشوا کی نماز جنازہ میں سیاستدانوں اور شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور نشوا کے اہل خانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان سب باتوں سے کٹھن وقت سے گزر رہے اہل خانہ کو جزباتی سہارے میں مدد تو مل سکتا ہے لیکن ننھی نشوا لوٹ کر نہیں آسکتی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ طبی غلطی کی وجہ سے کسی کی قیمتی جان کے ضیاع کا یہ کوئی آخری کیس ثابت نہیں ہوگا۔

2001ء میں دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہونے والے (جانز ہوپکنز) ہستپال میں 18 ماہ کی جوزی کنگ پانی کی کمی (ڈی ہائڈریشن) اور نشہ آور ادویات (نارکوٹکس) کے غلط ڈوز کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تھی۔ اس کے والدین بھی اسی صدمے سے گزرے جس صدمے سے آج نشوا کے گھروالے گزر رہے ہیں اور وہ ہسپتال کو اپنے کیے کی سزا دلوانا چاہتے تھے۔ جوزی کی والدہ نے لکھا تھا کہ، ’وہ کس طرح اس پوری صورتحال سے فرار ہوسکتے ہیں؟ انہیں تکلیف سہنی ہوگی۔ انہیں میری بیٹی کی یاد تازہ رکھنی ہوگی۔ انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انہیں وہی درد محسوس کرنا ہوگا جو اس وقت ہم کر رہے ہیں۔‘

سوریل اور ان کے شوہر ہسپتالوں کو دیگر بچوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بنانے کے مشن پر نکل پڑے۔ وہ دوبارہ اسی ہسپتال پہنچے جسے وہ اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار تصور کرتے تھے اور وہاں ایک پروگرام کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی، اس پروگرام کو بعدازاں جوزی کنگ پیشنٹ سیفٹی پروگرام کا نام دیا گیا۔

ڈاکٹر پیٹر پرونووسٹ کی صورت میں انہیں جان ہاپکنز ہستپال میں ایک پارٹر مل گیا جس کے ساتھ مل کر انہوں نے یہ پتہ لگایا کہ مریضوں کے تحٖظ میں کہاں کہاں مسائل ہیں اور ان کے حل کے لیے کون سے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ جوزی کے والدین کی جانب سے اٹھایا یہ قدم اب جوزی کنگ فاؤنڈیشن کی صورت لے چکا ہے جو پورے امریکا میں نظام صحت میں مدد فراہم کرنے کے لیے مختلف پروگرامز پر کام کر رہا ہے، ان پرورگامز میں مریض کی حفاظت سے متعلق نصاب تیار کرنے اور نرس کی زیر نگرانی میں مریض کی حفاظت کے پراجیکٹس شامل ہیں۔

طبی ٖغلطیاں پوری دنیا میں اموات کی ایک اہم وجہ بنی ہوئی ہیں۔ صرف پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ لوگ قابلِ انسداد طبی غلطیوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثرو بیشتر یہ غلطیاں کئی کئی گھنٹے کام کرنے والے ٹوٹے پھوٹے نظام میں پھنسے شعبہ صحت کے ملازمین سے ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس نظام میں آگے آگے رہنے والے انہی افراد کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اس ناکارہ نظام کے جو اصل ذمہ داران ہیں وہ بچ نکلتے ہیں۔

ننھی نشوا کے بعد جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اگر انہیں قانون کے تحت سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی ہے تو بھی مستقبل میں غلطیوں کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ دوبارہ طبی غلطی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو ایسی صورتحال میں یہ ٹوٹا پھوٹا نظام ایک دوسرے صحت ملازم کو آگے کردے گا۔ ک

مستقبل میں اگر حقیقی طور پر اس قسم کے واقعات سے بچنا ہے تو اس کے لیے ہمیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ پاکستان کا نظام صحت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب تک نظام کی مرمت نہیں ہوجاتی تب تک یہ مریضوں کے لیے غیر محفوظ ہی رہے گا، اور کئی لوگ قابل انسداد طبی غلطیوں کے باعث اپنی جانیں گنواتے رہیں گے۔ میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول، ہسپتالوں کی انتظامیہ، صحت کی وزارتیں، ریگولیٹری ادارے اور صحت کمیشنز جیسے وہ تمام جزو جو نظام صحت کو بناتے ہیں، وہ نظام کی بہتری کی جانب قدم بڑھا کر ممکنہ نقصان کی روک تھام میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

میڈیکل اور نرسنگ کالجوں کو اپنے نصاب میں عالمی ادارہ صحت کے مجوزہ بین الاقوامی ہدایات کے مطابق مریضوں کے تحفظ کو ایک اہم ترین موضوع کے طور پر شامل کرنا ہوگا۔ ہیلتھ ریگولیٹرز کو صحت کمیشنز کی صورت میں کم سے طے شدہ کم معیارات پر پورا اترنے والے شعبہ صحت مراکز یا اداروں کو لائسنس جاری کرنے کے عمل میں اپنا کردار کرنا ہوگا بلکہ بہتری کے غرض سے متعارف کردہ اقدامات کے لیے تکنیکی وسائل میں معاونت کا کام انجام دینا ہوگا۔

پاکستان کے اکثر ہسپتالوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹر اور نرسز موجود ہیں جو اپنے فرائض احسن انداز میں انجام دینا جانتے ہیں لیکن وہ بھی انسان ہیں، وہ ایک ایسے نظام کے اطلاق میں مدد چاہتے ہیں کہ جو محفوظ ہو اور مریضوں کو ناگزیر انسانی غلطیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہو۔

صحت انصاف پروگرام یا ایسے کسی دوسرے انشورینس پروگرامز کے ذریعے صرف انہی ہستپالوں کے نام خدمات فراہم کندہ صحت مراکز کے طور پر اندراج کیے جائیں جو معیار کے خاص پیمانوں اور مریض کے تحفظ سے متعلق مطلوبہ کارکردگی پر پورا اترتے ہوں۔ ان اقدامات کے تحت تقابلی جائزے کے مقاصد کے غرض سے معیار اور مریض کے تحفظ کے حوالے سے ڈیٹا کی معلومات اکٹھا کرنے کے کام سے شروع کی جاسکتی ہے اور پھر آگے چل کر برقی پلیٹ فارمز کے تحت صحت کی سہولیات کی فراہمی میں معاونت تک کی جاسکتی ہے۔

آخری بات یہ کہ سرکاری صحت کے اداروں کا بھی احتساب کرنا ہوگا اور انہیں بہتری لانے پر مجبور کرنا ہوگا، جو نہ صرف انفرااسٹریچر میں لائی جائے بلکہ محفوظ طریقہ کاروں کو متعارف کرتے ہوئے لائی جائے۔ طبی غلطیوں کے باعث کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، متاثرہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بند ہونے کے ساتھ حالات پہلے جیسے معمول پر آجاتے ہیں۔ طبی غلطیوں کی روک تھام کے لیے قومی سطح کی ایک جامع منصوبہ بندی موجودہ وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔

نشوا کی موت سے لے کر اس مضمون کو لکھنے تک کم از کم مزید 3 ہزار مریض قابل انسداد طبی غلطیوں کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہوں گے۔ ہمیں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مضمون 5 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں