صحافی سمیت 5 ملزمان پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا الزام

اپ ڈیٹ 07 مئ 2019
مطلوب حسین اس وقت خبروں کی زینت بنے تھے جب ان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں گھر سے حراست میں لیا گیا ہے — فوٹو بشکریہ مطلوب حسین فیس بک
مطلوب حسین اس وقت خبروں کی زینت بنے تھے جب ان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں گھر سے حراست میں لیا گیا ہے — فوٹو بشکریہ مطلوب حسین فیس بک

کراچی: پولیس نے مبینہ طور پر فرقہ وارانہ قتل میں ملوث ہونے پر معروف اردو اخبار سے منسلک صحافی سمیت 5 افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شرقی عامر فاروقی نے پریس کانفرنس میں گرفتار ملزمان کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان کے نام سید مطلوب حسین (رپورٹر روزنامہ جنگ)، سید عمران حیدر زیدی، وقار رضا، محمد عباس اور سید محتشم ہیں، جن کے خلاف مقدمات کا اندراج کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مطلوب حسین کو بیرونِ ملک سے تربیت لینے اور ایک سرکاری ویب سائٹ سے شخصیات کی فہرست ڈاؤن لوڈ کر کے غیر ملکی افراد کو دینے کا الزام ہے جو ممکنہ طور پر ان کی ٹارگٹ کلنگ کرسکتے تھے۔

مطلوب حسین حال ہی میں اس وقت خبروں کی زینت بنے تھے جب ان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں گھر سے حراست میں لیا گیا، جس پر متعدد میڈیا اداروں نے ان کی پراسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: جنگ اخبار کے رپورٹر کو مبینہ طور پر گھر سے اٹھا لیا گیا

ڈی آئی جی نے دعویٰ کیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے مطابق کچھ لاپتہ افراد، جن کے اہلِ خانہ گذشتہ چند روز سے صدر مملکت عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کررہے ہیں، بھی ریاست مخالف کارروائیوں میں ملوث پائے گئے اور پڑوسی ملک اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے حوالے سے ان کی تفتیش جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ لاپتہ افراد میں شامل کچھ افراد نے ممکنہ طور پر گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوشی اختیار کرلی ہو۔

ڈی آئی جی عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ ملزم سید عمران علی عرف علی 2015 اور 2017 میں پڑوسی ملک گیا تھا جہاں اس نے ’نیشنل گارڈز‘ سے 2 مرتبہ 25 دن کی عسکری اور معلومات جمع کرنے، ہتھیاروں کو استعمال کرنے، نگرانی اور نگرانی سے بچنے اور لوگوں کی ریکی کرنے کی تربیت حاصل کی۔

مزید پڑھیں: کراچی: صدر مملکت کی رہائش گاہ کے باہر پانچویں روز بھی دھرنا

ڈی آئی جی کے مطابق عمران زیدی نے 28 سے زائد افراد کی ریکی کرنے کا اعتراف کیا جس میں 7 کو محمد عرف چھوٹا گروپ نشانہ بنا چکا ہے، میڈیا افراد کی مبینہ بھرتی کے حوالے سے پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ عمران زیدی نے گروپ کے دیگر اراکین کو میڈیا سے تعلق رکھنے والے اہلِ تشیع افراد کی بھرتی اور پڑوسی ملک میں تربیت کی ذمہ داری دی تھی۔

عمران زیدی کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کی گئیں جس میں سے ایک میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔

محمد عباس کے بارے میں ڈی آئی جی نے بتایا کہ وہ ملیر کے علاقے جعفر طیار کا رہائشی تھا اور عمران گروپ کا سرگرم کارکن تھا اور اس نے بھی تربیت کے ساتھ مختلف افراد کی ریکی کر رکھی تھی، محمد عباس کے خلاف 3 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔

وقار رضا کے بارے میں ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ وہ فیڈرل بی ایریا کا رہائشی اور پیامِ ولایت اسکاؤٹس کا سرگرم رکن تھا اور اپنے ہمراہ شیعہ نوجوانوں کو پڑوسی ملک لے کر جاتا تھا اور پیامِ ولایت اسکاؤٹس کے لیے فنڈز جمع کرنے میں بھی ملوث تھا، وقار رضا کو 2 مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی کے مطابق سید محتشم گلستانِ جوہر کے علاقے حسین ہزارہ گوٹھ کا رہائشی تھا اور اس نے پڑوسی ملک سے 2 مرتبہ معلومات اکٹھی کرنے، ہتھیار اور دھماکا خیز مواد استعمال کرنے، نگرانی اور نگرانی سے بچنے اور لوگوں کی پروفائل تیار کر کے ریکی کرنے کی تربیت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: ’28 لاپتہ افراد واپس آگئے ہیں‘

ڈی آئی جی کے مطابق محتشم نے مطلوب عرف اویس کو گروپ میں شمولیت اور تربیت حاصل کرنے کے لیے پڑوسی ملک جانے پر مائل کیا۔

سلمان فارسی کے رہائشی صحافی مطلوب حسین کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سید محتشم حیدر نے مطلوب کو بھرتی کیا اور اس نے پڑوسی ملک سے 18 روز کی تربیت حاصل کی۔

ڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ ملیر پولیس کی جانب سے کی گئی ان گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی نے بھی 15 اپریل کو 6 مبینہ ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا جن کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ محمد سے تھا۔

دوسری جانب شیعہ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی نے پولیس کے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر ٹارگٹ کلر اور سہولت کار ظاہر کیے گئے، یہ افراد گزشتہ کئی ماہ سے لاپتہ تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

شریف ولی May 07, 2019 12:48pm
پہلے نامعلوم افراد کے ذریعے اغوا کراو پھر انکو سالوں تک لاپتہ رکھو۔ جب یہ بندے اور انکے اہل خانہ تنگ آجائے تو ان پر الزامات لگاو۔ یہ جنگل کا قانون کب تک چلیگا؟ اگر یہ الزامات درست ہیں تو کیوں کی گرفتاری چھپاکر اتنا عرصہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی؟ کیا قانون نام کی کوئی چیز ان اداروں اور ملازموں کے لئے نہیں؟ ہر مجرم کو سزا دیں مگر قانون کے مطابق۔ قانون میں لاپتہ کرکے کئی سال بعد الزمات لگانے کی اجازت کس نے دی؟