نشوا کیس:ضمانت منسوخ ہونے پر دارالصحت کے مالک،وائس چیئرمین عدالت سے فرار

اپ ڈیٹ 07 مئ 2019
عدالت نے عامر چشتی اور علی فرحان کی ضمانت منسوخ کی تھی — فائل فوٹو/ اے ایف پی
عدالت نے عامر چشتی اور علی فرحان کی ضمانت منسوخ کی تھی — فائل فوٹو/ اے ایف پی

کراچی: عدالت کی جانب سے نشوا ہلاکت کیس میں ملزمان کی ضمانت منسوخ ہونے پر دارالصحت ہسپتال کے مالک عامر چشتی اور وائس چیئرمین علی فرحان احاطہ عدالت سے فرار ہوگئے۔**

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (شرقی) کی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل صلاح الدین نے بتایا کہ انتظامیہ کے رول کا ایف آئی آر میں کہیں ذکر نہیں، آئی سی یو اور ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے بچی کی ہلاکت کا بتایا گیا اور اصل ایف آئی آر میں صرف یہ درج ہے کہ غلط انجیکشن لگانے سے بچی کی ہلاکت ہوئی۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے بعد بیانات کے ذریعے واقعے کو کہیں اور لے جانے کی کوشش کی گئی، تفتیشی افسر کی ذمہ داری تھی کہ کیس کو بہتر طریقے سے سامنے لاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ عبوری چالان میں دفعہ 119 کا اضافہ کیا گیا پھر 322 دفعہ لگائی گئی، قتل خطا کا کیس تو بن سکتا تھا لیکن تفتیشی افسر نے 302 کا مقدمہ بھی درج کر دیا۔

ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ دونوں ملازمین، جن سے یہ خطا ہوئی، انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے، ہسپتال انتظامیہ پر الزام عائد کیا گیا کہ ناتجربہ کار ملازمین رکھے جبکہ ہسپتال کو سیل کرنا بھی غیر مناسب رویہ تھا۔

مزید پڑھیں: نشوا ہلاکت کیس: 6 مفرور ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کے زبانی حکم پر ہسپتال سیل کیا گیا اور وزیر صحت کو حکم دیا گیا کہ ڈاکٹرز کو بھی گرفتار کیا جائے، انہوں نے مزید بتایا کہ میڈیا پریشر پر وزیر اعلی نے آئی جی سندھ کو کہا کہ جو ملتا ہے گرفتار کیا جائے۔

اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ بچی کی حالت خراب ہونے پر آپ نے بچی کو ڈسچارج کیوں نہیں کیا، ہسپتال انتظامیہ نے اس وقت کہا تھا کہ کسی اور ہسپتال لے جانا چاہتے ہیں تو لے جاسکتے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بچی کے اہل خانہ نے ہسپتال انتظامیہ سے کہا کہ آپ لکھ کر دیں غلطی ہوئی تو ہم ڈسچارج کرلیتے ہیں، جس پر ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب بچی کو لیاقت نیشنل ہسپتال منتقل کیا گیا تو ہسپتال انتظامیہ نے خط لکھا کہ اس بچی کے علاج معالجے کے تمام اخراجات دارالصحت اٹھائے گا۔

دوران سماعت بچی کے والد عدالت میں آبدیدہ ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ کو تمام صورتحال کا علم تھا، مجھے بچی کو دوسرے ہسپتال شفٹ کرنا تھا لیکن ہسپتال انتظامیہ نے مجھے بچی کی ہسٹری لکھ کر نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتال انتظامیہ نے جو غلط انجیکشن لگایا اس کو لکھ کر دینے سے انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ 'میری بچی تڑپ رہی تھی لیکن اسے ڈسچارج نہیں کیا گیا جس کے بعد ہم نے میڈیا کو بلایا کہ مسئلہ سنگین ہوگیا تھا'۔

عدالت نے نشوا ہلاکت کیس میں دارالصحت ہسپتال کے مالک عامرچشتی اور وائس چیئرمین علی فرحان کی عبوری ضمانت منسوخ کی تھی جس کے بعد وہ پولیس کی عدالت میں موجودگی کے باوجود فرار ہوگئے۔

بعد ازاں عدالت میں نشوا ہلاکت کیس میں نامزد تیسرے ملزم عرفان اسلم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی اور عدالت نے عرفان اسلم کی ضمانت میں توثیق کردی۔

یہ بھی پڑھیں: نشوا ہلاکت کیس: ضمانت منسوخ ہونے پر ملزمان عدالت سے فرار

ملزم عرفان اسلم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عرفان اسلم ہسپتال انتظامیہ کا دوست ہے ملازم نہیں۔

یاد رہے کہ عدالت نے ملزم کی ضمانت 2 لاکھ روپے میں منظور کی تھی۔

ہسپتال دوبارہ کھولنے کے فیصلے پر سپریم کورٹ جارہے ہیں، والد نشوا

کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نشوا کے والد کا کہنا تھا کہ وہ ہسپتال کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جارہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی ضمانت مسترد ہونے پر ملزم فرار ہوئے اور آج یہ بھی ملزمان باآسانی فرار ہوگئے۔

اس سے قبل 3 مئی 2019 کو بھی کراچی کی مقامی عدالت کی جانب سے نشوا ہلاکت کیس میں ملزمان کی ضمانت منسوخ کیے جانے پر 2 ملزمان عدالت سے فرار ہوگئے تھے۔

سٹی کورٹ میں نشوا ہلاکت کیس کی سماعت ہوئی تھی جس میں عدالت نے ڈاکٹر عطیہ اور ڈاکٹر شرجیل کی ضمانت منسوخ کردی تھی، جس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ملزمان باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ ملزمان نے عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کر رکھی تھی.

بعد ازاں 6 مئی کو مقامی عدالت نے نجی ہسپتال میں غلط انجیکشن کے باعث ہلاک ہونے والی بچی نشوا کے کیس میں 2 ڈاکٹروں سمیت 6 مفرور ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے تھے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے تمام 6 مفرور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا جن میں ہسپتال کے ایچ آر ڈائریکٹر عرفان اسلم، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد عالم، نرسنگ سربراہ ڈاکٹر رضوان اعظمی، چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر سید شرجیل حسان، نائٹ ڈیوٹی ڈاکٹر/آر ایم او ڈاکٹر عطیہ احمد اور سید شبر رضوی شامل ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے انتظامیہ کو ان ملزمان کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: غلط انجیکشن سے نشوا کے انتقال پر دارالصحت ہسپتال سیل

خیال رہے کہ 9 ماہ کی بچی نشوا کو پیٹ میں تکلیف کے باعث 7 اپریل کو کراچی کے دارالصحت ہسپتال لایا گیا تھا جہاں غلط انجیکشن کے باعث ان کے دماغ کو نقصان پہنچا تھا اور کئی روز تک زیر علاج رہنے کے بعد وہ انتقال کر گئی تھی۔

بعد ازاں ہسپتال کو سیل کردیا گیا تھا اور اسٹاف کے کئی اراکین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

واقعے کے مقدمے میں ہسپتال کے مالک عامر چشتی اور وائس چیئرمین سید علی فرحان کو انتظامیہ اور طبی عملے کے 6 مفرور اور 4 زیر حراست ملزمان کے ہمراہ نامزد کیا گیا تھا جبکہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 322، 337 اور 34 کے تحت بچی کے والد قیصر علی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Murad May 07, 2019 05:33pm
The private hospitals need to be registered by Dept of Health. Govt should be able to suspend the hospital's license permanently and heavy fines should be imposed on the Board of Directors. The CEO of the hospital needs a sack and some jail time along with others directly responsible if malpractices are proven in the court.