ایران کے فیصلے کے بعد چینی صدر کا سعودی فرمان روا سے رابطہ

اپ ڈیٹ 09 مئ 2019
شی جن پنگ نے ایران کے اعلان کے بعد شاہ سلمان سے رابطہ کیا—فائل/فوٹو:رائٹرز
شی جن پنگ نے ایران کے اعلان کے بعد شاہ سلمان سے رابطہ کیا—فائل/فوٹو:رائٹرز

چینی صدر شی جن پنگ نے ایران کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے جزوی طور پر دست برداری کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر سعودی فرمان روا شاہ سلمان سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے دو طرفہ تعلقات سمیت خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق شی جن پنگ کی جانب سے سعودی فرمان روا سے رابطہ ایران کے اس اعلان کے فوری بعد کیا گیا ہے جس میں ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر دیگر ممالک نے امریکا کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تو مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

چینی وزارت خارجہ کا دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطے کے حوالے سے کہنا تھا کہ صدر شی جن پنگ نے شاہ سلمان سے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بات کی۔

مزید پڑھیں: ایران کا امریکا کےساتھ جوہری معاہدے سے جزوی دستبرداری کا اعلان

شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب کی جانب سے چین اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کی جانے والی فعال کوششوں کو سراہتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چین، سعودی عرب کی قومی خودمختاری کی سلامتی، سیکیورٹی اور استحکام کے لیے کوششوں کو بھی سراہتا ہے اور معاشی اہداف کے حصول کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے’۔

قبل ازیں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کا کہنا تھا کہ 2015 کے جوہری معاہدے پر ایران، روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کے درمیان دستخط ہوئے تھے جس پر مکمل اور موثر انداز میں عمل درآمد ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چین معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے ایران کی حمایت اور امریکا کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے اور امریکی اقدامات سے کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتا ہے’۔

ایران کے اعلان کے بعد چین کے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے کی حفاظت اور اس پر عمل کرنا تمام فریقین کی ذمہ داری ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات شروع کریں اور کشیدگی کو مزید بڑھانے سے گریز کریں’۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول کی اجازت نہیں دیں گے،اسرائیلی وزیراعظم

یاد رہے کہ چین سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے 2015 میں ایران سے جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے کے لیے معاہدہ کیا تھا جس کے بدلے ایران پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی تاہم امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اس معاہدے پر مسائل پیدا ہونے لگے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ایران سے جوہری معاہدہ سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کردی تھیں اور گزشتہ ماہ ایرانی فوج کے اہم حصے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور ایرانی تیل کی فروخت کے حوالے سے بھی پابندیاں عائد کی تھیں جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

خیال رہے کہ ایران نے امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی دو تجارتی استثنیٰ میں توسیع نہ دینے پر پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر معاہدے سے جزوی دستبرداری کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد دیگر ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور چینی صدر شی جن پنگ نے خطے میں مزید کسی قسم کی کشیدگی کے پیش نظر سعودی فرمان روا سے فون پر رابطہ کرکے دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔

تہران نے معاہدے کے فریقین ممالک برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی پرواضح کردیا کہ وہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کا حل تلاش کرے۔

معاہدے میں شامل دیگر ممالک کو 60 دن کی مہلت دیتے ہوئے ایرانی صدر نے واضح کیا تھا کہ اگر وہ ایرانی بینکنگ اور خام تیل کی تجارت سے منسلک شعبوں پر عائد پابندی ختم کرانے میں ناکام ہوتے ہیں تو تہران معاہدے کی مزید شرائط سے بھی دست بردار ہوجائےگا۔

ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ معاہدے کو عمل جراحی کی ضرورت ہے اور برسوں کی نفرت سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں