برِصغیر پاک و ہند کے بڑے ادیبوں میں شامل، جن کی مقبولیت دورِ حاضر میں بھی برقرار ہے، وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ وہ جب زندہ تھے، تو ان کے ناشرین اور فلمی صنعت کے سیٹھوں نے ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کو فروخت کرکے اپنے دام کھرے کیے، اور جب وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں تو انہیں کبھی ناشرین کے ہاتھوں کتابوں کی شکل میں تو کبھی فلموں کے نام پر سنیما کی اسکرین پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

اردو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ادب لکھنے والے اس ادیب کی آج یعنی 11 مئی کو سالگرہ ہے، جنہیں سماج کو آئینہ دکھانے کے جرم میں عدالتوں میں گھسیٹا گیا، پھر اسی سماج میں ان کو بعد از مرگ سب سے بڑا ملکی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔

امریکا میں ایک انسائیکلوپیڈیا کے بہت بڑے ادارے نے پوری دنیا سے مسلسل مقبولیت حاصل کرنے والے ادیبوں کا انتخاب کیا تو پاکستان سے منتخب ہونے والے 2 ادیبوں میں سے ایک سعادت حسن منٹو ہی تھے۔ یہ بھی منٹو ہی تھے جن کی تخلیقات انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر ڈھلیں تو دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئیں۔ دنیا بھر میں ادب پڑھنے والے ان کے کام اور نام سے واقف ہیں۔

سعادت حسین منٹو
سعادت حسین منٹو

منٹو کے حوالے سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس دکھ کو اب تک محسوس ہی نہیں کیا گیا جس کی اذیت میں قلم ڈبو کر منٹو نے جان نکال لینے والے افسانے لکھے، جن کے آئینے میں معاشرے کا بدصورت چہرہ نمایاں ہوا، بجائے اپنا منہ نوچنے کے، سماج آئینہ توڑنے پر تُل گیا۔

تقسیم سے پہلے بھی منٹو پر پابندی لگتی تھی، آج 72 برس گزرنے کے بعد بھی اسے پابندیوں کا سامنا ہے۔ پہلے اس کی کتابیں پڑھنا ممنوع تھیں، آج اس پر بنی ہوئی فلم دیکھنا ممنوع ہے۔

منٹو کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو فلم ہی ایک ایسی صنعت تھی جس نے ان پر شہرت کے دروازے کھولے، روزی روٹی کمانے کی راہیں آسان کیں۔ ہندوستان میں فلم ریویور اور اسکرپٹ رائٹر منٹو کی قدر شناسی ہوئی لیکن پاکستان میں فلمی صنعت کے لیے ان کی کوئی قلمی جادوگری بھی کام نہ آسکی۔

حالیہ دور میں منٹو فلم کے پردے پر

بھارت کی معروف فلم ساز ’نندیتا داس‘ نے 2018ء میں سعادت حسن منٹو کی زندگی پر فیچر فلم ’منٹو‘ بنائی، جس میں مرکزی کردار نوازالدین صدیقی نے ادا کیا، جبکہ پہلے اس کے لیے عرفان خان کو نامزد کیا گیا تھا مگر پھر وہ اس فلم کا حصہ نہ بن سکے۔

نندیتا داس کی یہ فلم بھارت میں باکس آفس پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی جبکہ پاکستان میں اس فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہیں ملی۔ پاکستان سنسر بورڈ کی طرف سے اس فلم کو پاکستان مخالف فلم قرار دے کر بین کردیا گیا، جبکہ غالباً گمان یہ ہے کہ فلم میں شامل جن افسانوں کو قابلِ اعتراض گردانا گیا، وہ پاکستان میں بھی متعدد بار مختلف ڈراموں اور فلموں کی صورت میں عکس بند ہوکر نشر کیے جاچکے ہیں۔ بھارتیوں نے البتہ یہ کہہ نندیتا داس کی خبر لی کہ ’تمہیں کوئی بھارتی ادیب نہیں ملا تھا فلم بنانے کے لیے، جو ایک پاکستانی ادیب کی زندگی پر فلم بنا دی۔‘

پاکستان میں اس فلم کی پابندی پر کچھ خاص بات نہیں کی گئی، البتہ لاہور میں منٹو میموریل کے سربراہ سعید احمد نے پریس کلب کے سامنے ایک نمائشی انداز کا احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں مقصد منٹو سے زیادہ نندیتا کو پروموٹ کرنا تھا کیونکہ اگر وہ فلم کی نمائش کے لیے سنجیدہ ہوتے تو انہوں نے فلم کی پابندی کے خلاف عدالتی کارروائی کا اعلان کیا ہوتا، اس پر عمل تو خیر کیا ہوتا، ان کا اس فلم میں دلچسپی کا سبب صرف اتنا تھا کہ وہ ان 5 مشیروں میں سے ایک تھے جن کی مشاورت سے یہ فلم لکھی گئی۔

اردو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ادب لکھنے والے اس ادیب کی آج 11 مئی کو سالگرہ ہے
اردو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ادب لکھنے والے اس ادیب کی آج 11 مئی کو سالگرہ ہے

مجھے ذاتی طور پر بہت حیرت ہوئی نندیتا داس کے اس فیصلے پر کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو مشاورت کے لیے منتخب کیا جن کے کریڈٹ پر منٹو کے تناظر میں کچھ خاص کام نہ تھا البتہ جن لوگوں نے تحقیق کی اور کام کیا ان کو پوچھا تک نہ گیا۔

بھارت میں ہمایوں اشرف، پروفیسر شمس الحق عثمانی، ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی اور ان کے صاحبزادے اور معروف داستان گو ’محمود فاروقی‘ موجود تھے، جنہوں نے منٹو کے ادب کو ’منٹویت‘ کی اصطلاح سونپ کر دریا کو کوزے میں بند کیا۔ نہ صرف یہ کہ نندیتا داس نے ان سے بھی مشاورت کی زحمت نہ کی، بلکہ اس اصطلاح کو بے رحمی سے اپنی گفتگو میں استعمال کیا، اور کسی بھی موقع پر انہیں کریڈٹ دینا گوارا نہ کیا۔

پاکستان میں اب تک کی سب سے مستند کلیات منٹو کے مدون ڈاکٹر امجد طفیل، منٹو کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کے ساتھ رہنے والے ان کے شاگرد ڈاکٹر انور سجاد، منٹو پر بے حد تحقیق کرنے والے مستند محقق پرویز انجم سمیت کسی متعلقہ اور مستند شخص سے بھی نندیتا داس نے مشاورت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جس کی وجہ سے اسکرپٹ میں سقم پیدا ہوئے اور بھارت کے ادبی حلقوں میں اس فلم کے لیے ناپسندیدگی کا عنصر پیدا ہوا۔

پاکستان میں بھی جن لوگوں نے اس فلم کو آن لائن دیکھا انہوں نے کچھ زیادہ پسند نہیں کیا، اس کی بنیادی وجہ اسکرپٹ کی کمزوری سمجھ آتی ہے۔ راقم نے بھی وہ فلم دیکھی ہے، تکنیکی اعتبار سے فلم مضبوط تھی، اگر اسکرپٹ اور کہانی پر درست رخ میں مزید کھوج کرلی جاتی تو بات بن سکتی تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔

پاکستان میں بننے والی فلم ’منٹو‘ سرے سے فلم ہی نہیں تھی، بلکہ نجی چینل کے لیے عام انداز میں بنایا گیا ایک ڈراما تھا، جس میں سے کاٹ پیٹ کے فلم نکالی گئی، پھر تکنیکی اعتبار سے بھی بہت کمزور فلم تھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے ہی منٹو بننا پسند کیا۔ پاکستان میں انہیں اپنے علاوہ کوئی اداکار اس منصب پر فائز ہونے کے لیے دکھائی نہ دیا، یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ اس فلم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

پاکستان میں بننے والی فلم منٹو
پاکستان میں بننے والی فلم منٹو
ہندوستان میں بننے والی فلم منٹو
ہندوستان میں بننے والی فلم منٹو

ماضی میں منٹو کے افسانوں پر بننے والی چند معروف فلمیں

1945ء میں معروف ہدایت کار ’جے کے نندہ‘ نے منٹو کے افسانے ’جھمکے‘ پر پہلی فلم بنائی، جس کو 1966ء میں ہدایت کار اقبال شہزاد نے دوبارہ ’بدنام‘ کے ٹائٹل کے ساتھ فلمایا، جس کے مکالمے معروف فلم ساز ریاض شاہد نے لکھے تھے۔

1975ء میں ہدایت کار حسن طارق نے فلم ’اک گناہ اور سہی‘ بنائی، جس کا مرکزی خیال منٹو کے افسانے ’ممی‘ سے لیا گیا تھا۔

1957ء میں منٹو کے افسانے ’لائسنس‘ سے متاثر ہوکر فلم ’یکے والی‘ بنائی گئی، جس میں سدھیر اور مسرت نذیر نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی کمائی سے پروڈیوسر نے فلمی اسٹوڈیو بنالیا۔ اس فلم کے ہدایت کار ایم جے رانا تھے۔

1972ء میں اسی افسانے سے متاثرہ پنجابی زبان میں بھی ایک فلم بنائی گئی۔

1961ء میں ہدایت کار خلیل قیصر نے منٹو کی انقلابی کہانی کو بنیاد بناکر فلم ’عجب خان‘ بنائی، جس میں سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد 1971ء میں یہ فلم دوبارہ بنائی گئی، اس بار ہدایت کار رحیم گل تھے۔

منٹو پر 1987ء میں برطانوی فلم میکر Ken McMullen نے سب سے پہلے منٹو کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کو انگلینڈ میں فلمی شکل دے کر پردہ اسکرین پر پیش کیا۔ 90 منٹ کی یہ فلم انگریزی زبان میں تھی جس کے اسکرپٹ رائٹر معروف پاکستانی نژاد برطانوی دانشور طارق علی تھے۔ اس فلم کا نام ’پارٹیشن‘ تھا، اس کے اداکاروں میں روشن سیٹھ، زہرا سہگل، ضیا محی الدین اور بھارتی آرٹ فلموں کے شہرت یافتہ اداکار سعید جعفری نے کام کیا تھا۔ بی بی سی پر ٹیلی کاسٹ ہونے والی اس فلم کو بہت پسند کیا گیا تھا۔

1994ء میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے کلکتہ میں بنگالی زبان میں فلم ’انتارین‘ بنائی، جس کی کہانی منٹو کے افسانے ’بادشاہت کا خاتمہ‘ سے متاثر تھی، جبکہ منٹو کے ہی 3 دیگر افسانوں ’ہتک‘، ’ممد بھائی‘ اور ’بابو گوپی ناتھ‘ کو بھی کارپوریشن نے اپنی اس فلم کے اسکرپٹ میں شامل کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار مرنال سین تھے۔

2002ء میں ہدایت کارہ فریدہ مہتا نے منٹو کے افسانے ’کالی شلوار‘ پر فلم ’دی بلیک گارمنٹس‘ بنائی، جس میں معروف بھارتی اداکار عرفان خان سمیت کئی معروف اداکاروں نے کام کیا۔

1995ء میں بھارت میں ہی ہدایت کار شکتی میرابھا نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو فلمایا، جس میں پاکستان سے شجاعت ہاشمی اس فلم میں کام کرنے گئے۔

2005ء میں ہدایت کارہ عافیہ نتھائیل نے اسی افسانے پر فلم بنائی۔

2009ء میں معروف بھارتی اداکار عامر خان نے بھی منٹو کے اسی افسانے پر فلم بنانے کا اعلان کیا، جس میں انہوں نے کیٹ ونسلیٹ کو کاسٹ کرنے کی بات کی، لیکن یہ فلمی منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔

متوازی سینما کے فلم سازوں نے اس افسانے کو متعدد بار اپنی فلموں کا موضوع بنایا حتیٰ کہ 2018ء میں نندیتا داس کی فلم ’منٹو‘ کا کلائمکس بھی اسی افسانے پر مبنی تھا۔

پاکستان ٹیلی وژن اور کئی نجی چینلوں نے بھی منٹو کے افسانوں پر شارٹ فلمیں بنائی ہیں اور جامعات کے طلبا بھی اس تناظر میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی 2019ء میں نیشنل کالج آف آرٹس کے طلبا نے بھی منٹو کے حوالے سے شارٹ فلم بنائی ہے، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

منٹو کی اپنی لکھی ہوئی فلمیں

سعادت حسن منٹو نے اپنے فلمی کیرئیر میں زیادہ تر فلمیں بھارت کے قیام کے دوران لکھیں، جو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہے اور انہیں عوامی پہچان یہیں سے ملنا شروع ہوئی۔ ان فلموں کی بالترتیب فہرست کچھ یوں ہے:

  • کسان کنیا،
  • اپنی نگریا،
  • نوکر،
  • چل چل رے جوان،
  • بیگم،
  • شکاری،
  • آٹھ دن،
  • گھمنڈ،
  • مرزا غالب

جبکہ پاکستان میں انہوں نے کُل 3 فلمیں لکھیں، جن میں

  • بیلی،
  • دوسری کوٹھی اور
  • کٹاری شامل ہیں۔

ہفت روزہ جریدے ’مصور‘ کی ادارت سنبھالنے کے بعد منٹو کو فلمی دنیا میں قدم رکھنا پڑا، اور یہ قدم ان کے لیے کافی سود مند ثابت ہوا۔ سنجیدہ ادبی حلقوں میں لکھاریوں کو فلم کے شعبے میں کام کرنے کی بدولت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن منٹو نے اس بات کی پرواہ نہیں کی۔ ادارت کرنے کے ساتھ ساتھ منٹو نے فلم کے موضوع پر کئی عمدہ مضامین لکھے، فلموں پر تبصرے بھی کیے۔ شعر و غزل میں دلچسپی نہ ہونے کے باوجود مرزا غالب جیسی فلم لکھی جو انہیں ذاتی طور پر بھی پسند تھی۔

فلم ’بَن کی سندری‘ وہ پہلی فلم تھی جس کے مکالمے منٹو نے لکھے جبکہ وہ کئی فلم کمپنیوں کا حصہ بھی رہے، زیادہ تر نے انہیں ایک منشی سے زیادہ حیثیت نہیں دی، اسی وجہ سے اکثر ان کی لکھی کی گئی فلموں میں انہیں کریڈٹ ہی نہیں دیا گیا۔

اس کی نمایاں مثال برِصغیر کی پہلی رنگین فلم ’کسان کنیا‘ ہے، جس کا اسکرپٹ، منظرنامہ اور مکالمے منٹو نے لکھے لیکن اس پر منٹو کا نام نہیں ہے۔ وہ پہلی فلم جس پر بطور اسکرپٹ رائٹر منٹو کا نام شائع ہوا، وہ ’آٹھ دن‘ تھی اور یہی وہ واحد فلم ہے جس میں منٹو نے ایک پاگل فوجی افسر کا مختصر کردار بھی نبھایا۔ اس فلم میں ان کے علاوہ کئی اور ادیبوں نے بھی اداکاری کی، جن میں میرا جی، راجا مہدی علی خاں اور اوپندر ناتھ اشک وغیرہ شامل ہیں۔

وکٹر ہیوگو کے معروف ناول ’دی مزابیل‘ کی تلخیص بھی منٹو نے کی، جس کی بنیاد پر ہدایات کار سہراب مودی نے فلم ’کندن‘ بنائی۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں منٹو کی لکھی ہوئی پہلی فلم ’بیلی‘ باکس آفس پر ناکام رہی، دوسری فلم ’آغوش‘ تھی، اس کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں جو تیسری اور آخری فلم لکھی، اس کا نام ’دوسری کوٹھی‘ تھا۔ جس کے بعد منٹو پاکستان میں فلمی صورتحال سے دلبرداشتہ ہوگئے۔

منٹو اور فلمی دنیا کا بندھن

منٹو نے جب ہوش سنبھالا تو ان کی زندگی میں تفریح کا پہلا ذریعہ فلم ہی تھا۔ انہوں نے بچپن اور بلوغت کے ابتدائی برسوں میں بے تحاشا انگریزی ناول پڑھے اور بے شمار انگریزی فلمیں بھی دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فلم بین ہونے کے ناطے ان کی پسند ناپسند بہت واضح تھی، وہ ہولی وڈ کے معروف ہدایت کاروں میں فرینک کیپرا، ارنسٹ کیوبش، ایرک وان اسٹرہیم، ڈبلیو ڈی گرفتھ کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سنیما سے دادا پھالکے، دیوکی بوس اور شانتا رام پسند تھے۔

انگریز اداکاروں میں جان گلبرٹ اور اداکاراؤں میں گریٹ گاربو، مارلین ڈیرچ، لان چینی، بورس کارلوف، میری یکفورڈ، گلوریا سوانسن، للین ڈینا گیش، ڈوتھی گیش، انگرڈ برگ مین اور الزبتھ ٹیلر شامل تھیں۔ منٹو جس کمرے میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے وہاں ان اداکاراؤں میں سے اکثر کی تصویر آویزاں تھیں، انہوں نے ’چچا سام کے نام خطوط‘ میں بھی ان میں سے بہت ساری حسیناؤں کا حوالہ دیا اور تذکرہ بھی کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں