ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی تشخیص کیلئے طبی تحقیقات کی تجویز

اپ ڈیٹ 11 مئ 2019
لاڑکانہ میں ایچ آئی وی اسکریننگ کیمپ—فوٹو بشکریہ ایس اے سی پی
لاڑکانہ میں ایچ آئی وی اسکریننگ کیمپ—فوٹو بشکریہ ایس اے سی پی

کراچی: مہلک بیماریوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ کے ضلع رتوڈیرو میں جہاں ایک طرف ایچ آئی وی کے ’پھیلاؤ‘ کی تشخیص کے لیے ایک طبی تحقیقات کی ضرورت ہے تو وہیں سندھ حکومت کو محفوظ خون، جراثیم سے پاک سرنجز کی فراہمی، طبعی فضلہ ضائع کرنے کا مکمل طریقہ کار اور تمام افراد بالخصوص گرفتار ڈاکٹر کی رازداری کا احترام یقینی بنانا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ شہ سرخیاں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہوئی ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ لاڑکانہ میں ایک ایچ آئی وی سے متاثرہ ڈاکٹر کی وجہ سے اس علاقے میں بچوں اور بڑوں سمیت 282 افراد کو مبینہ طور پر یہ بیماری لاحق ہوئیں۔

تاہم مختلف کیسز کی یہ خبریں اس وقت سنسنی خیز اختتام کے ساتھ بند ہوئیں جب مذکورہ ڈاکٹر کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا جبکہ اس وقت اس معاملے پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تحقیقات بھی کر رہی ہے۔

اگر ہیومن امیونوڈیفیشی اینسی وائرس (ایچ آئی وی) کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ایکوائرڈ امیونوڈیفیشی اینسی سنڈروم (ایڈز) تبدیل ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیں: شکارپور میں ایڈز کے مزید 9 کیسز سامنے آگئے، بچے بھی شامل

اس حوالے پاکستان اقتصادی سروے 18-2017 کے مطابق ’ابھی تک وفاقی اور صوبائی سطح پر ایڈز کنٹرول پروگرامز (اے سی پی) کو 4 ہزار 5سو ایچ آئی وی کے مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں‘، جبکہ ایک جملہ 13-2012 سے سروے رپورٹس میں مسلسل دہرایا جارہا ہے۔

ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی—فوٹو بشکریہ ایس اے سی پی
ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی—فوٹو بشکریہ ایس اے سی پی

دوسری جانب اقوام متحدہ کی 2017 کی ایڈز فیکٹ شیٹ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ بڑے اور بچے ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

اس معاملے پر ڈان نے مہلک بیماریوں کے ماہرین تک رسائی حاصل کی تاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ لاڑکانہ میں حالیہ ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے پیچھے کیا وجوہات ہیں، آیا ایچ آئی وی (یا ہیپاٹائٹس بی/سی) کے ساتھ ایک شخص ہسپتال کے شبعوں (اور کسی اور جگہ) میں کام کرسکتا ہے اور اس بیماری کے مزید پھیلاؤ کو فوری طور پر روکنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟

اس حوالے سے میڈیکل مائیکروبائیولوجسٹ اینڈ انفیکشن ڈیزیزس سوسائٹی پاکستان کی صدر اور آغا خان یونیورسٹی میں مہلک بیماریوں کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا تھا کہ ’ایچ آئی وی کی وبا ایک دہائی سے زائد عرصے سے چل رہی ہے، یہ صورتحال ابھی تک غیر تصدیق شدہ ہے کیونکہ کوئی اس معاملے پر غور کرنے کا سوچتا نہیں ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: حیدرآباد میں ایچ آئی وی کے 140 مثبت کیسز حکومتی توجہ حاصل کرنے میں ناکام

انہوں نے کہا کہ ایچ آئی وی کا ’پھیلاؤ‘ وقت کے ساتھ ساتھ اس وقت سامنے آتا ہے جب ڈاکٹرز کچھ ایسی چیز کی تصدیق کریں جو عام حالات کے عمومی طریقے کے مطابق نہ ہو۔

ویب ایم ڈی پر ایک ایکسپلینر کا کہنا تھا کہ یہ بیماری کا ’پھیلاؤ اس وقت ہوتا ہے جب ایک طبقے یا خطے میں یا سیزن کے دوران توقع سے زیادہ تعداد میں بیماری سامنے آئے‘، ساتھ ہی انہوں نے یہ واضح کیا کہ ’ایپی ڈیمک اس وقت ہوتا ہے جب ایک مہلک بیماری بہت زیادہ لوگوں میں تیزی سے پھیل رہی ہو‘ جبکہ ’پین ڈیمک ایک عالمی بیماری کا پھیلاؤ ہے‘۔

ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا تھا کہ ’ لاڑکانہ اور ملحقہ علاقوں میں ایچ آئی وی شاید اینڈیمک ہے جبکہ کیسز اس وقت سامنے آتے ہیں جب صرف کوئی اسکریننگ ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کرے، چونکہ یہ (اسکریننگ) وقفے وقفے سے ہوتی ہے تو یہ پھیلاؤ کا غلط تاثر دیتے ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح لاڑکانہ میں وبا سے متعلق 2016 میں ہیمو ڈائی لیسس یونٹ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ تقریباً 2 دہائیوں سے بڑی تعداد میں آبادی میں ایچ آئی وی موجود ہے جبکہ غیر تصدیق شدہ بلڈ بینکس بغیر اسکریننگ کے خون فراہم کرتے ہیں اور جراثیم سے پاک کیے بغیر سرنجوں کا بڑی تعداد میں استعمال ہوتا ہے اور ابتدائی طور پر صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور غیر تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز موجود ہیں۔

ڈاکٹر بشریٰ نے زور دیا کہ اس بات کی آگاہی پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ (زندگی بچانے کی حد تک) کے علاوہ بے وجہ انجیکشن نومولود اور بچوں کو نہیں لگائے جائیں جبکہ سخت دیکھ بھال اور حفظان صحت کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے خون کی منتقلی کے لیے ٹیسٹ شدہ خون کی دستیابی ضروری ہے۔

پریکٹس کےلیے محفوظ؟

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایچ آئی وی سے متاثرہ ڈاکٹر پریکٹس کرسکتا ہے تو ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹھیک ہے کہ علاج حاصل کرنے والے ایچ آئی وی پوزیٹو ڈاکٹرز پریکٹس کرسکتے ہیں اور کچھ پیچیدہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر طبی طریقہ کار میں بھی شامل ہوسکتے ہیں‘۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایس آئی یو ٹی میں مہلک بیماریوں کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سنیل ڈوڈانی نے بھی کیا اور بیماری کو ڈی اسٹگما ٹائیزیشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایچ آئی وی پوزیٹو کو صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ہسپتال اور طبی شعبوں میں کام کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر سنیل ڈوڈانی نے استعمال شدہ انجیکشن کو کاٹ کر پھینکنے اور نجی کلینکس سمیت تمام طبی مراکز میں حفظان صحت کو بہتر بنانے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: رتوڈیرو کے 13بچوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آنے کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ میری رائے ہے کہ میڈیا کو ان تمام افراد کی رازداری کا خیال رکھنا چاہیے جن کے ٹیسٹ مثبت آئے ہوں۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر ڈوڈانی، ڈاکٹر عزیر اللہ خان ڈھیلو سمیت اس تین رکنی تکنیکی ٹیم (جس کی قیادت ڈاکٹر شہلہ باقی کر رہی ہیں) کا حصہ ہیں جو ملزم ڈاکٹر مظفر گھنگارو کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی مدد کر رہی ہے، اس ٹیم کی جانب سے اپنی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی گئی ہے۔

اگرچہ رپورٹ کے خلاصے کو انتظامیہ کی جانب سے سامنے نہیں لایا گیا لیکن جی آئی ٹی ٹیکنیکل ٹیم کے اراکین اور دیگر مہلک بیماریوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ پھیلاؤ ’کثیر مقصدی‘ (کئی عوامل خاص طور پر جنیاتی یا ماحولیاتی عوامل پر منحصر ہوسکتے ہیں) اور اس سب کے لیے ایک شخص کو قربانی کا بکرا بنانا غیر منصفانہ ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں