مہاتیر محمد کی حکومت میں معاشی بحالی کی امیدیں دم توڑنے لگیں

13 مئ 2019
ملائیشیا کے وزیراعظم کو ورثے میں قرض میں ڈوبی معیشت ملی تھی ان کی حکومت کی حمایت کم ہو کر 39 فیصد ہوگئی، رپورٹ— فائل فوٹو/رائٹرز
ملائیشیا کے وزیراعظم کو ورثے میں قرض میں ڈوبی معیشت ملی تھی ان کی حکومت کی حمایت کم ہو کر 39 فیصد ہوگئی، رپورٹ— فائل فوٹو/رائٹرز

ایک سال قبل ملائیشیا کے محمد نور الف کی امیدیں بلند تھیں کہ انتخابات میں 93 سالہ مہاتیر محمد کی حیران کن کامیابی بڑھتی ہوئی کرپشن اور عوامی قرض میں گھرے ملک میں اصلاحات اور بحالی کا باعث بنے گی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق رائے عامہ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات میں اپ سیٹ کے بعد سے ایسی امیدوں نے تیزی سے دم توڑا ہے جس میں یونائیٹڈ ملائیز نیشنل آرگنائزیشن (یو ایم این او)60 سال میں پہلی مرتبہ اس کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ مہاتیر محمد اور پکاتن ہراپن اتحاد نے جگہ بنائی۔

مہاتیر محمد جنہیں ورثے میں قرض میں ڈوبی معیشت ملی تھی ان کی انتظامیہ کی توجہ عوامی پیسوں کی اربوں ڈالر کرپشن ختم کرنے پر مرکوز ہے جس میں سرکاری فنڈ اور سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے کرپشن اسکیںڈل شامل ہیں۔

نجیب رزاق الزامات کا سامنا کررہے ہیں اور خود پر عائد الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حکمراں اتحاد میں تقسیم کی وجہ سے حکومتی ریونیو میں اضافے، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں سبوتاژ ہوئیں ہیں۔

مردیکا سینٹر کی جانب سے منعقد کیے گئے رائے عامہ سروے کے مطابق مارچ میں حکومت کی حمایت کم ہو کر 39 فیصد ہوگئی جو کہ اگست 2018 میں 66 فیصد تھی۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے آئیڈیل مہاتیر محمد نے 100 دن میں کیا کیا؟

اسی عرصے میں مہاتیر محمد کی مقبولیت 71 فیصد سے کم ہوکر 46 فیصد ہوگئی تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ان اعداد پر یقین نہیں رکھتے۔

مردیکا سینٹر کا کہنا تھا کہ ملائیشیا کے مسلمان جو ملک کی 3 کروڑ 20 لاکھ آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں وہ مہاتیر محمد کی انتظامیہ پر بڑے پیمانےپر تنقید کررہے ہیں۔

ملک میں اکثر غریب افراد مالائےہیں اور دہائیوں سے یو ایم این او ای کی جانب سے فراہم کی جانے والی سبسڈیز اور دیگر اقدامات سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔

اکثریتی برادری میں اکثر افراد اس وقت بھی برہم ہوئے تھے جب مہاتیر محمد نے چینی شخص کو وزیر خزانہ اور ملائیشیا کی ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے شخص کو اٹارنی جنرل تعینات کیا تھا اور کہا تھا کہ مالائے افراد کو نقد دی جانے والے رقم میں کمی کی جاسکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی روایت پسندوں میں سزائے موت ختم کرنے اور ظالمانہ قوانین ختم کرنے کے معاملات غیر مقبول رہے۔

محمد نور الف نے دارالحکومت میں سیکڑوں افراد کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ’ اکثر نوجوانوں کی اس نئی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن ہم نے جس کی امید کی تھی ویسا کچھ نہیں دیکھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کے لیے بہتر مستقبل کی یقین دہانی چاہتے ہیں خاص طور پر مالائے نوجوانوں کے لیے‘۔

رواں برس ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمراں پکاتن اتحاد کی سلسلہ وار شکست اور مالائے افراد کی جانب سے احتجاج کے بعد اکثر طےشدہ پالیسیوں کا خیال خواب بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دورہ ملائیشیا پر مہاتیر محمد کا وزیراعظم عمران خان سے اظہارِ تشکر

حالیہ چند ماہ میں ملائیشیا مالائے حامی گروہوں کی جانب سے اعتراض کے بعد سزائے موت اور سخت قوانین کے خاتمے کی کوششوں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے انسانی حقوق کے دو معاہدوں کو مسترد کرنے کے منصوبوں سے پیچھے ہٹ گیا۔

تاہم یو ایم این او اور اپوزیشن جماعت پی اے ایس ووٹرز کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ مہاتیر محمد اسلام کی بالادستی اور مالائے افراد کے مفادات کی حفاظت میں ناکام رہے۔

سیاسی خطرات سے متعلق مشاورت کے بوور ایشیا گروہ کے ملائیشین ڈائریکٹر عدیب زلکلپی نے کہا کہ ’ پاکستان مالائے مسلم الیکٹرویٹ سے واقف نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ یو ایم این او اور پی اے سی کمیونل جذبات کا استحصال کرکے حکومت کو چیلنج کررہی ہیں‘۔

اسی طرح پکاتن میں اصلاحات کے مقاصد کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے، پکاتن ان جماعتوں کا اتحاد ہے جو نجی رزاق اور یو ایم این او کو ہٹانے پر متفق ہوئے تھے لیکن اب اس پر رضامند دکھائی نہیں دیتے۔

سینئر حکومتی ذرائع نے حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ ’ ہر کسی کو مسائل کا اندازہ ہے جو ہمیں درپیش ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں