ایمازون میں مسلم ورکرز کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟

13 مئ 2019
تین مسلم خواتین نے کمپنی کے خلاف شکایت دائر کی ہے — رائٹرز فوٹو
تین مسلم خواتین نے کمپنی کے خلاف شکایت دائر کی ہے — رائٹرز فوٹو

دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوز کی ای کامرس کمپنی ایمازون کے چند ورکرز نے اس کمپنی کے خلاف امریکی ادارے میں شکایت دائر کی ہے جس میں کہا گیا کہ انہیں مینیسوٹا کے وئیرہاوسز میں کام کرتے ہوئے نسل پرستی اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ تینوں مسلمان خواتین صومالی نژاد ہیں اور انہوں نے اپنی شکایت میں لکھا کہ نماز، روزے یا واش روم کے وقفے کے لیے وقت لینے پر انہیں نکالے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔

سول رائٹ گروپ مسلم ایڈووکیٹس نے اپنے ایک خط میں بتایا کہ امریکا کے Equal Employment Opportunity Commission میں شکایت دائر کی گئی ہے۔

خط میں بتایا گیا 'مذہبی عبادات کے لیے وقت دینے پر ورکر کی ریٹنگ کم ہوتی ہے یا یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے فی گھنٹہ کتنی اشیا کو پیک کیا، ملازمین جن کی ریٹنگ کم ہوتی ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ نماز ادا کرتے ہیں، کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس کا نتیجہ برطرفی کی شکل میں نکلتا ہے'۔

اس خط کے بارے میں سب سے پہلے نیویارک ٹائمز میں رپورٹ آئی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ ایمازون کے وئیرہاﺅسز میں ائیر کنڈیشنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کمپنی کے مسلم ملازمین کے لیے ماہ رمضان کے دوران روزے رکھنا لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ انہیں ایمازون کی ہائی ریٹ ڈیمانڈ کو بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

دوسری جانب ایمازون کے ایک ترجمان نے اس شکایت کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا مگر اس کا کہنا تھا کہ ہمارے ورکرز جیسے چاہے نماز پڑھ سکتے ہیں، نماز کے لیے 20 منٹ سے کم وقفہ تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے اور بیس منٹ سے زائد وقفے پر ان پیڈ بریک کی درخواست کو بخوشی قبول کیا جاتا ہے۔

مگر تینوں ورکرز نے کمپنی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ صومالی مسلمانوں اور مشرقی افریقی ورکرز کے مقابلے میں ترقی کے لیے سفید فام ورکرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سفید فام ورکرز کو بہتر ذمہ داریاں اور کام سونپے جاتے ہیں۔

اس معاملے پر ایمازون نے بھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

خیال رہے کہ ایمازون کے وئیر ہاﺅسز میں ورکرز کی صورتحال کے حوالے سے حالیہ برسوں کے دوران کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ ورکرز کو اہداف کی تکمیل کے غیرانسانی حد تک کام کرنا ہوتا ہے۔

امریکا اور یورپ بھر میں ایمازون کے ورکرز کے لیے ورکنگ صورتحال پر احتجاج بھی ہوئے جن کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ روبوٹس جیسا سلوک ہوتا ہے۔

ایمازون کے خلاف شکایت دائر کرنے والی تینوں مسلم خواتین بھی ایمازون کے ان ورکرز کے ساتھ شام لتھیں جنہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں ورکنگ صورتحال پر احتجاج کیا تھا۔

ان خواتین نے احتجاج میں متحرک کردار ادا کرتے ہوئے میڈیا کے ساتھ اپنی کہانیاں شیئر کیں اور اب ان کا کہنا ہے کہ اب کمپنی کی جانب سے ردعمل کے طور پر انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔

مسلم ایڈووکیٹس کا اپنے خط میں کہنا تھا 'ایمازون کا صومالی ورکرز کے لیے پیغام بہت واضح ہے، اس کمپنی کی انتظامیہ ایسا ہراساں کردینے والا ماحول تشکیل دینا چاہتی ہے کہ وہ خواتین خود ملازمت چھوڑ دیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں