صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک

آزادی صحافت اور صحافتی اداروں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 2018 میں دنیا کے 180 ممالک میں آزادی صحافت کے حوالے سے بدترین ممالک میں 139 ویں نمبر پر تھا اور اب پاکستان 142 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے یعنی پاکستان کی کارکردگی میں تین درجے تنزلی ہوئی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا شمار آزادی صحافت کے لیے دنیا کے بدترین 40 ممالک میں ہوتا ہے۔

پاکستان کا شمار آزادی صحافت اور صحافیوں کے لیے مشکل ممالک میں تو ہوتا ہی ہے، اس کا شمار ان ممالک میں بھی کیا جاتا ہے جہاں مختلف وجوہات کی بناء پر صحافتی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

صحافی خبر اور درست معلومات عوام تک پہنچانے کے جرم میں تشدد کا نشانہ تو بنتے ہی ہیں، صحافتی اداروں کو بھی پُرتشدد کارروائیاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کے صحافتی اداروں یعنی ٹی وی چینل، اخبارات اور ریڈیو کے دفاتر پر حملوں سمیت ان کے بائیکاٹ کیے جانے یا پھر ان کے خلاف مظاہروں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کی تاریخ پرانی ہے۔

صحافتی اداروں کو پسند کی خبریں شائع نہ کرنے، خواہشات کے مطابق کوریج نہ دینے، کسی معاملے کی مبینہ غلط رپورٹنگ یا پھر کسی متنازع منصوبے سے متعلق اشتہارات شائع کرنے کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

صحافیوں اور صحافتی اداروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور تشدد پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کے مطابق گزشتہ 18 برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے۔

جن صحافتی اداروں پر حملے کیے گئے ان میں سندھی اخبار روزنامہ ’خبرون‘ بھی شامل ہے، جس کے دفتر کو تقریبا ڈیڑھ دہائی قبل 2005 میں نشانہ بنایا گیا۔

یہ اخبار بیک وقت سندھ کے تین شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر سے شائع ہوتا تھا جبکہ اس وقت اس کی یومیہ کئی ہزار کاپیاں شائع ہوتی تھیں لیکن پھر اچانک دسمبر 2005 میں اخبار نے مبینہ متنازع اشتہار شائع کیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اخبار کے مقام کو مٹی میں ملا دیا, اور اس کے لیے اپنی بقا کی جنگ مشکل ہو گئی۔

دسمبر 2005 کی صبح مذکورہ اخبار کے سکھر کے دفتر پر نامعلوم افراد نے پیٹرول بم سے حملہ کیا، یہ حملہ اخبار میں’کالا باغ ڈیم‘ کی حمایت کے لیے شائع کیے گئے سرکاری اشتہار کے اگلے ہی دن کیا گیا۔

حملے سے دفتر میں موجود کچھ افراد زخمی ہوئے، اس حملے سے ہی اخبار کے خلاف عوام کے احتجاج کا آٖغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے اخبار کی شہرت کو ہی نگل لیا۔

’عوام کو یہ امید بالکل نہیں تھی‘

اخبار پر کالا باغ ڈیم کے سرکاری اشتہار شائع ہونے کے بعد حملے اور عوامی احتجاج کو یاد کرتے ہوئے اس وقت اخبار کی انتظامیہ میں شامل اعلیٰ عہدیدار نے تسلیم کیا کہ ان کے ادارے کو سندھ کے عوام اپنا ترجمان تصور کرتے تھے اور عوام کو یہ امید بالکل نہیں تھی کہ ان کا ترجمان ہی ڈیم کی حمایت میں اشتہار شائع کرے گا۔

نام راز میں رکھنے کی شرط پر عہدیدار نے بتایا کہ اشتہار شائع کرنے کے بعد نہ صرف سکھر میں اخبار کے دفتر کو نشانہ گیا بلکہ حیدرآباد میں مرکزی دفتر سمیت دیگر شہروں میں اخبار کے دفاتر پر بھی مشتعل ہجوم نے حملے کیے۔

سابق عہدیدار کے مطابق عوام کے غصے کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے اخبار کے دفتر پر حملوں کا مقدمہ بھی درج نہیں کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

پی پی ایف کی رپورٹ کے مطابق اخبار کے دفتر پر پیٹرول بم سے کیے گئے حملے میں قوم پرست کارکنان ملوث تھے۔

تاہم اخبار کے سابق عہدیدار نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ اخبار کو صرف قوم پرست جماعتوں کے افراد نے نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نہ صرف قوم پرست جماعتوں کے کارکنان بلکہ عوام، چند صحافی اور ادیب بھی اخبار کے خلاف ہوگئے تھے، کیوں کہ عوام کو ڈیم کی حمایت سے متعلق اشتہار ناگوار گزرا۔

سابق عہدیدار کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اشتہار شائع کرنے کے اگلے ہی دن اخبار سے منسلک کم سے کم 200 صحافیوں اور کارکنان نے ایک ساتھ ہی احتجاجاً ملازمت چھوڑدی۔

’ تشدد کی راہ اختیار کرنا جرم ہے‘

اخبار کے بائیکاٹ اور اس کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے حوالے سے سندھ کی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ (جسقم) کے مرکزی رہنما صدر الہی بخش بکک کا کہنا تھا کہ جس طرح اشتہار یا خبر شائع کرنا اخبار کا حق تھا، اسی طرح احتجاج کرنا عوام کا حق تھا۔

انہوں نے اخبار کے دفتر پر کیے جانے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں غلط اور تشدد قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے یا شخص کے خلاف تشدد کی راہ اختیار کرنا جرم ہے۔

کسی بھی صحافتی ادارے کے خلاف تشدد غیر جمہوری عمل ہے، الہی بخش بکک—فوٹو: فیس بک
کسی بھی صحافتی ادارے کے خلاف تشدد غیر جمہوری عمل ہے، الہی بخش بکک—فوٹو: فیس بک

الہی بخش بکک کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے البتہ ان کی جماعت اور کارکنان کسی بھی معاملے پر اپنا پر امن احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتے ہیں۔

قوم پرست رہنما کے مطابق اگرچہ صحافتی اداروں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، جس کے تحت وہ کسی بھی طرح کا مواد شائع کر سکتے ہیں، تاہم اداروں کو کچھ مواد شائع کرتے وقت عوام کے جذبات کو نظر میں رکھنا چاہیے۔

اسی معاملے پر ایک اور قوم پرست جماعت قومی عوامی تحریک (کیو اے ٹی) کے سینیئر ڈپٹی سیکریٹری جنرل روشن کنرانی کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ عوام نے مسترد شدہ منصوبے کی راہ ہموار کرنے پر کسی اخبار یا صحافتی ادارے کا بائیکاٹ کیا ہو۔

عوامی تحریک کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی عوام اور سیاسی جماعتوں نے سندھ کی جانب سے مسترد شدہ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کی حمایت کرنے والے صحافتی اداروں کا بائیکاٹ کیا اور مستقبل میں بھی اگر کسی ادارے نے ایسے منصوبوں کی حمایت کی تو اس کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافتی ادارے کا بائیکاٹ کرنا الگ بات ہے اور کسی بھی ادارے کے خلاف تشدد کی راہ اختیار کرنا یا اس پر حملہ کرنا دوسری بات ہے، کسی بھی ادارے پر حملہ غیر جمہوری اور غیر قانونی عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اشتہار شائع کرنے کے بعد خود اخبار کے ملازمین بھی انتظامیہ سے ناراض تھے اور درجنوں صحافیوں نے اشتہار شائع ہوتے ہی ملازمتیں چھوڑ دیں۔

’اشتہار شائع نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا‘

اشتہار شائع ہونے کے بعد ملازمت چھوڑنے والے صحافیوں میں زلف پیرزادہ بھی شامل تھے جو اس وقت اخبار کے نیوز ایڈیٹر تھے اور وہ آج بھی صحافت سے وابستہ ہیں، انہیں اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بطور نیوز ایڈیٹر انہیں دیگر ڈیسک اراکین سے پہلے علم ہوا کہ اخبار میں اشتہار شائع ہونے جا رہا ہے اور انہوں نے اس وقت کے ایڈیٹر، مارکیٹنگ عملے اور مالکان کو اشتہار شائع نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا مگر ان کی رائے پر عمل نہیں کیا گیا۔

احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے، روشن کنرانی—فوٹو: فیس بک
احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے، روشن کنرانی—فوٹو: فیس بک

زلف پیرزادہ کا کہنا تھا کہ جب انتظامیہ نے اشتہار شائع کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا، تو انہوں نے اسی وقت ہی اخبار کا تمام کام مکمل کرنے کے بعد ملازمت چھوڑ دی اور انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ وہ صبح سے اخبار کا حصہ نہیں رہیں گے۔

ان کے مطابق ان کے ساتھ ہی مرکزی دفتر میں کام کرنے والے دیگر 40 اراکین نے بھی اسی وقت ملازمت چھوڑ دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح اشتہار شائع کرنا اخبار مالکان کا حق تھا، اسی طرح ملازمت چھوڑنا ان کا حق تھا اور اسی طرح ہی اشتہار شائع ہونے کے بعد اخبار کے خلاف عوام کے مظاہرے بھی ان کا جمہوری حق تھا۔

انہوں نے اخبار کے دفتر پر ہونے والے حملے کو عوامی رد عمل قرار دیا۔

’ اشتہارات بھی اخبار کی پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں‘

لیکن کیا اخبار کی جانب سے اشتہار شائع کرنے کی بناء پر صحافی کو اپنی ملازمت چھوڑ دینی چاہیے؟اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے صحافی ماجد سموں کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق صحافیوں نے صرف اشتہار شائع کرنے پر ملازمت نہیں چھوڑی بلکہ انہیں محسوس ہوا کہ اخبار کی پالیسی ہی تبدیل ہوگئی ہے۔

ان کے مطابق اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات بھی اخبار کی پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستانی میڈیا سے متعلق عوامی خدشات

اشتہار شائع کرنے کے حوالے سے خبرون سے منسلک رہنے والے سینیئر صحافی اے بی راٹھور کا کہنا تھا کہ جس اشتہار کو عام عوام متنازع کہ رہا ہے وہی اشتہار اخبار انتظامیہ کے لیے عام اشتہار تھا، تاہم اخبار کو اسے شائع کرنے سے قبل اس کی حساسیت کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔

اے بی راٹھور نے بھی اشتہار شائع کرنے پر اخبار کے دفتر پر حملے کو غیر جمہوری عمل قرار دیتے ہوئے اسے آزادی اظہار کے خلاف تشدد قرار دیا اور کہا کہ دفتر پر حملہ کرنے کے بجائے اخبار کے بائیکاٹ اور اس کے خلاف مظاہروں کو ترجیح دی جاتی۔

ان کے مطابق کسی بھی طرح اخبار کے دفتر پر حملے کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا، تاہم اشتہار شائع کرنے کے بعد ملازمت چھوڑنے کا صحافیوں کا فیصلہ ذاتی تھا، جس سے آزادی صحافت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

سب سے زیادہ کراچی کے صحافتی اداروں پر حملے کیے گئے—فائل فوٹو: ڈان
سب سے زیادہ کراچی کے صحافتی اداروں پر حملے کیے گئے—فائل فوٹو: ڈان


یہ تحریر لکھاری کی پی پی ایف فیلوشپ کا حصہ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔