نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار بیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ

وکیل راؤ انوار کے مطابق عدالت نے ان کے موکل کو ضمانت دی لیکن بعد میں نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا — فائل فوٹو/ ڈان نیوز
وکیل راؤ انوار کے مطابق عدالت نے ان کے موکل کو ضمانت دی لیکن بعد میں نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا — فائل فوٹو/ ڈان نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد سابق پولیس افسر راؤ انوار کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالنے کی نظرثانی درخواست کو عدالتی فیصلے کے ساتھ دوبارہ دائر کرنے کا حکم دے دیا۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

راؤ انوار کے وکیل نے دلائل دیئے کہ عدالت نے ان کے موکل کو ضمانت دی لیکن بعد میں نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے بیرون ملک جانے کی وجہ پوچھی تو راؤ انوار کے وکیل نے بتایا کہ اہل خانہ سے ملنے جانا ہے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کی ای سی ایل سے نام کے اخراج کیلئے نظرثانی درخواست

جسٹس عمرعطا بندیال کی جانب سے ایف آئی آر اور انکوائریز سے متعلق استفسار پر وکیل نے کہا کہ 444 لوگوں کے قتل کے حوالے سے بہت سی چیزیں چل رہی ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کوئی اور ایف آئی آر اور انکوائری نہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اخباروں میں آتا ہے کہ راؤ انوار کے خلاف مزید انکوائریاں چل رہی ہیں، جس پر نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کے وکیل نے بتایا کہ راؤ انوار کے خلاف نیب میں اثاثوں سے متعلق انکوائریاں بھی چل رہی ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس نوعیت کے تو بہت سے کیسز ہیں، عدالت اس کیس کو نہیں دیکھ رہی۔

انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ راؤ انوار پولیس آفیسر ہیں تو باہر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ کیا بیرون ملک ان کا کوئی کاروبار ہے؟

عدالت نے بعد ازاں راؤ انوار کو نظر ثانی درخواست دوبارہ دائر کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار کا بیرون ملک جانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

14 فروری 2019 کو نقیب اللہ محسود سمیت 400 افراد کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام کے اخراج کے لیے سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔

اس سے قبل نقیب اللہ محسود قتل کیس سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کرنے والے راؤ انوار نے ای سی ایل سے نام خارج کرنے کی درخواست کی تھی جسے اعلیٰ عدلیہ نے 10 جنوری کو مسترد کردیا تھا۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوری 2018 میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ جنوری میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں