'میرے کردار اور ساکھ پر سوالات اٹھانا حد سے باہر نکلنا ہے'

مہوش حیات تمغہ امتیاز دکھاتے ہوئے — فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج
مہوش حیات تمغہ امتیاز دکھاتے ہوئے — فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج

مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دینے کے اعلان کے بعد مذاق اڑانے اور نفرت انگیز کمنٹس کا سامنا ہوا تھا اور یہ سلسلہ تھما نہیں۔

اب مہوش حیات نے بی بی سی ایشین نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے کیرئیر، اخلاقیات اور بولی وڈ میں کام کرنے کے حوالے سے بات کی۔

انہوں نے کہا 'گزشتہ 2 برسوں کے دوران میں بہت زیادہ صاف گو رہی ہوں، مجھے یہ احساس ہوا کہ صرف اداکارہ ہونا ہی کافی نہیں، مجھے ان مقاصد کے لیے اپنی آواز بھی بلند کرنی چاہیے جن پر میں یقین رکھتی ہوں'۔

انہوں نے مزید کہا 'یہ سب دلیر ہونے پر ہوتا ہے جو میں ہمیشہ اپنے کرداروں ، اپنے کیرئیر اور انتخاب میں دکھاتی ہوں، تو میں ان مسائل پر آواز کیوں نہیں بلند کرسکتی جو مجھے بہت زیادہ محسوس ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں بہت معاملات پر بہت زیادہ بات کرتی ہوں اور میں خوش ہوں کہ لوگ اس کا احترام کرتے ہوئے میری بات سنتے ہیں'۔

مہوش حیات کا کہنا تھا کہ تمغہ امتیاز ملنے پر وہ بہت زیادہ 'اونچا اڑنے' لگی تھیں اور یہ احساس اچھا لگتا ہے کہ ان کا نام ان لیجنڈز اور ہیروز میں شامل ہوگیا جن کو یہ اعزاز ملا، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس اعزاز دیئے جانے کے اعلان کے بعد نفرت اور بدزبانی کے بارے میں بھی بات کی۔

مہوش حیات کا کہنا تھا 'عوامی شخصیت ہونے کی وجہ سے میں مذاق اور تنقید کی عادی ہوں اور اس میں کوی برائی بھی نہیں، ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے، مگر میرے کردار اور ساکھ پر سوالات اٹھانا حد سے باہر نکلنا ہے'۔

فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج
فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج

انہوں نے بتایا 'پاکستانی سنیما اور آرٹ کے لیے میرے کام کو نظرانداز کردیا گیا اور یہ تصور کیا گیا کہ اس ایوارڈ کے لیے میں نے کسی سے تعلق قائم کیا، یہ حد سے باہر نکلنا ہے، جس کے خلاف میں کھڑی ہوئی اور جدوجہد کی، کوئی بھی میری ساکھ اور کردار پر سوال نہیں اٹھا سکتا جو مجھے جانتا تک نہ ہو'۔

انہوں نے مزید کہا 'بطور فنکار ہم احترام اور قبولیت کے حقدار ہوتے ہیں، لوگوں کی ذہنیت بدل رہی ہے مگر ہمیں اب بھی اپنے خیالات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے 2017 میں اپنی فلموں سے ڈھائی ارب روپے حاصل کیے جبکہ 2018 میں 5 ارب روپے کا بزنس کیا، تو یہ پھلتا پھولتا کاروبار ہے اور ہم سب دنیا کے سامنے پاکستان کا اچھا چہرہ اجاگر کررہے ہیں، ہم سب کو اس کا احترام اور اعتراف کرنا چاہیے'۔

مہوش حیات نے اپنے کیرئیر میں مغربی ملبوسات کو پہننے اور آئٹم سانگز پر پرفارم کرنے پر بات کرتے ہوئے کہا 'ہم بہت زیادہ گلیمرس انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں ہمیں اپنی جلد کا کچھ حصہ دکھانا ہوتا ہے، ہمیں مغربی ملبوسات پہننا پڑتے ہیں، میں نے بلی پر رقص کیا کیونکہ میں ایک اداکارہ ہوں اور وہ اس کردار کی مانگ تھا جو میں ادا کررہی تھی'۔

ان کے بقول 'اس انڈسٹری کا حصہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہم نے اپنی اخلاقیات کو چھوڑ دیا ہے، ہم فنکار بہت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتے ہیں اور ہم اپنے اقدار کو نظرانداز نہیں کرسکتے'۔

فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج
فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج

مہوش حیات کو فلموں کے کردار کے انتخاب کے حوالے سے کوئی پچھتاوا نہیں مگر انہوں نے ایک غلطی کو تسلیم کیا جو فیئرنس مصنوعات کے لیے کام کرنا تھا۔

انہوں نے کہا 'میں اس وقت جوان تھی اور احساس نہیں تھا کہ ان مصنوعات کا کیا مطلب ہے، میں نے بس گلیمر اور خوبصورتی دیکھی، اب ذہنی طور پر باشعور ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں ایسی اشیا کی توثیق نہیں کرنا چاہیے جن پر مجھے یقین نہیں۔ میری رنگت صاف نہیں، میری رنگت گندمی ہے اور مجھے اپنی رنگت سے محبت ہے'۔

فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج
فوٹو بشکریہ مہوش حیات انسٹاگرام پیج

مہوش حیات نے بولی وڈ فلموں کی پیشکش مسترد کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچ سمجھ کر کیا گیا فیصلہ تھا کیونکہ وہ اپنے ملک میں رہنا چاہتی ہیں اور پاکستانی سنیما کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں