جنسی ہراساں انکوائری: ملازمت سے برخواست کے فیصلے کےخلاف پروفیسرکی پٹیشن خارج

اپ ڈیٹ 24 مئ 2019
آصف سلیم کو جائے کار پر وومن پروٹیکشن ایکٹ 2012 کے تحت ملازمت سے برخواست کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
آصف سلیم کو جائے کار پر وومن پروٹیکشن ایکٹ 2012 کے تحت ملازمت سے برخواست کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے طالبہ کو جنسی ہراساں کرنے سے متعلق کیس میں ملازمت سے برخواست کرنے کے فیصلے کے خلاف نجی یونیورسٹی کے پروفیسر کی پٹیشن خارج کردی۔

یونیورسٹی آف لاہور کے اسسٹنٹ پروفیسر آصف سلیم نے اپنی پٹیشن میں ’ملازمت سے برخواست‘ کے فیصلے کو لاہورہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’خواتین سے جنسی ہراساں ہونے کا ثبوت مانگنا کمزوری ہے‘

اسٹنٹ پروفیسر آصف علیم انسٹی ٹیوٹ آف مائیکروبائیولوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی اسکالر بھی تھے۔

طالبہ کی شکایت پر آصف سلیم کے خلاف انکوائری ہوئی جس میں انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

انکوائری کے فیصلے کے بعد آصف سلیم کو جائے کار پر وومن پروٹیکشن ایکٹ 2012 کے تحت ملازمت سے برخواست کردیا تھا۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ’آصف سلیم کو پی ایچ ڈی پروگرام سے بھی بے دخل کردیا گیا‘۔

مزیدپڑھیں: جنسی ہراساں کرنے کا معاملہ، فنکاروں کا لکس ایوارڈزکابائیکاٹ

بعدازاں آصف سلیم محسب میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی لیکن مسترد کردی گئی۔

علاوہ ازیں پنجاب گورنر نے بھی ان کی اپیل مسترد کردی تھی۔

آصف سلیم نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا تھا کہ فیصلہ غیرقانونی اور حقائق اور قانون سے منافی ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ انہیں ذاتی حیثیت میں نہیں سنا گیا۔

آصف سلیم نے اپنی پٹیشن میں کہا کہ ’وومن پروٹیکشن ایکٹ 2012 ان کے کیس میں لاگو نہیں ہوتا کیونکہ شکایت کنندہ اور دیگر نے حسد کی بنیاد پر جنسی ہراساں کا کیس کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی طور پر ہراساں خواتین بھرپور مدد کی مستحق ہیں، ایشوریا رائے

صوبائی وکیل نے پٹیشن کی مخالفت کی اور کہا کہ انکوائری میں آصف سلیم پر جنسی ہراساں کا جرم ثابت ہوا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے پٹیشن خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پاکستان مردوں کی سوسائٹی ہے جہاں خواتین کو جائے کار پر مخالفت اور رکاوٹ کا سامنا رہتا ہے اور ملکی ترقی میں ان کا حصہ مختصر رہتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں