بھارتی فورسز سے 'جھڑپ' میں اہم کشمیری حریت پسند شہید

اپ ڈیٹ 25 مئ 2019
جیسے ہی ذاکر موسیٰ کی شہادت کی خبر وادی میں پھیلی، سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر امڈ آئے—تصویر:اے ایف پی
جیسے ہی ذاکر موسیٰ کی شہادت کی خبر وادی میں پھیلی، سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر امڈ آئے—تصویر:اے ایف پی

سری نگر: بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے آزادی کی جدوجہد کرنے والے حریت پسند کو قتل کردیا، جنہوں نے مبینہ طور پر القاعدہ سے وفاداری کا عہد کیا تھا۔

بین الاقوامی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جیسے ہی ذاکر موسیٰ کی شہادت کی خبر وادی میں پھیلی، سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جن کی بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

نتیجتاً انتظامیہ نے پوری وادی کشمیر میں موبائل نیٹ ورک انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور مظاہروں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے وادی کے بڑے حصے میں کرفیو نافذ کردیا۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کے مطابق 25 سالہ ذاکر موسیٰ کو جمعرات کی شام بھارتی فوجیوں اور انسدادِ بغاوت پولیس نے ترال کے جنوبی قصبے میں قائم ایک پناہ گاہ میں اس وقت گھیرے میں لیا جب وہ وہاں اکیلے تھے اور انہیں ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: بھارتی فوج کا ریاستی جبر جاری، مزید 4 نوجوان شہید

شناخت نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بات کرنے والے پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ذاکر موسیٰ نے زندہ پکڑے جانے پر لڑائی کو ترجیح دی اور فورسز کے گھیراؤ پر جواب میں گرینیڈ اور گولیاں فائر کیں اور جھڑپ کے دوران مارے گئے۔

واضح رہے کہ ذاکر موسیٰ نے 2017 میں انصار غزوات الہند نامی گروہ تشکیل دیا اور اطلاعات کے مطابق اسے القاعدہ سے منسلک قرار دیا۔

ذاکر موسیٰ نے 2013 میں بھارتی قبضے کے خلاف لڑنے والے سب سے بڑے جنگجو گروہ حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے انجینئرنگ کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی۔

اور بعدازاں کشمیر کے معروف حریت کمانڈر برہان وانی کے گروہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی، یہ گروہ بھارت کے تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کرتا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: سرچ آپریشن کے دوران مزید 3 کشمیری شہید

خیال رہے کہ 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد پوری وادی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو کئی ماہ تک جاری رہا اور اس کے نیتجے میں 100 شہری جاں بحق جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

بعدازاں ذاکر موسیٰ نے برہان وانی کی جگہ سنبھال لی تھی لیکن 2017 میں اس سے علیحدہ ہوکر انصار غزوات الہند کی بنیاد رکھی جس کے بارے میں کشمیر میں القاعدہ کی شاخ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

اور اس نے بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری رہنماؤں کو خلافت کے لیے اپنی لڑائی کے راستے میں آنے سے خبردار کیا تھا جس کے بعد حزب المجاہدین نے بھی ذاکر موسیٰ سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی اور ان سے وابستہ زیادہ تر افراد کو بھارتی فوج قتل کرچکی ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’موسیٰ کے ساتھ صرف ایک یا 2 ساتھی باقی رہ گئے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر اقوام متحدہ سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ

واضح رہے کہ آزادی یا پاکستان سے الحاق کے خواہشمند کئی مسلح کشمیری گروہ بشمول حزب المجاہدین کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں جنہیں نئی دہلی کے کنٹرول کے لیے اس علاقے میں 5 لاکھ کی تعداد میں تعینات کیا گیا تھا۔


یہ خبر 25 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں