مقتول افضل کوہستانی کے بھائی 'غیرت کے نام پر قتل' کے مقدمے میں نامزد

پولیس افسر کے مطابق افضل کے بھائیوں کو بیوہ بھابھی اور وقار کے درمیان تعلقات کا شبہ تھا — فائل فوٹو/ اے ایف پی
پولیس افسر کے مطابق افضل کے بھائیوں کو بیوہ بھابھی اور وقار کے درمیان تعلقات کا شبہ تھا — فائل فوٹو/ اے ایف پی

کوہستان اسکینڈل کے مرکزی کردار مقتول افضل کوہستانی کے بھائیوں کو بیوہ بھابھی سے مبینہ تعلقات کے الزام میں ایک شخص کو قتل کرنے کے مقدمے میں نامزد کرلیا گیا۔

پولیس کی جانب سے افضل کوہستانی کے بھائیوں، گل نذر اور گل شہزادہ، کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق دونوں ملزمان نے اپنے بھائی افضل کوہستانی کی بیوہ سے مبینہ تعلقات کے الزام میں ایک کسان محمد وقار کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔

یہ واقعہ خیبرپختونخوا کی تحصیل بٹاگرام کے علاقے بیاری میں پیش آیا۔

مزید پڑھیں: ایبٹ آباد: کوہستان ویڈیو اسکینڈل کو منظر عام پر لانے والا شخص قتل

مقتول وقار کے بھائی کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق تینوں افراد کار میں سوار ہو کر ایک قریبی عزیز کے گھر جارہے تھے کہ راستے میں افضل کوہستانی کے بھائیوں نے کار کو رکوایا اور وقار کو کار سے باہر آکر معاملے پر بات چیت کے لیے کہا۔

ایف آئی آر کے مطابق جب وقار کار سے باہر آیا تو گل نذرنے ان پر فائرنگ کردی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

بانا تھانے کے ایس ایچ او نوید احمد خان نے بتایا کہ گل نذر کو شبہ تھا کہ ان کی بیوہ بھابھی اور وقار کے درمیان غیر قانونی تعلقات قائم ہیں، جس پر اس نے مقتول کی کار کو روکا اور اس پر فائرنگ کردی۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ واقع کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جن کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افضل کوہستانی کے قتل کے الزام میں ایک اور شخص گرفتار

انہوں نے مزید بتایا کہ مقتول اور ملزمان کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے۔

بعد ازاں ڈان کے رابطہ کرنے پر افضل کوہستانی کے ایک اور بھائی بن یاسر نے الزامات کی تردید کی، ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کیسے کسی کو غیرت کے نام پر قتل کرسکتے ہیں جبکہ ہم خود غیرت کے نام پر قتل کے خلاف عدالتوں میں کیسز کی پیروی کررہے ہیں'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقار کے اہل خانہ سے ان کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ ان کے گھر پر مہمان کے طور پر قیام بھی کرچکے ہیں، اس لیے مذکورہ الزامات سمجھ سے بالاتر ہیں۔

یاد رہے کہ افضل کوہستانی کو 6 مارچ کو ایبٹ آباد کے سربان چوک پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا اور فرار ہوگئے تھے۔

کوہستان ویڈیو کیس

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

رواں سال 2 جنوری کو کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں رقص کرنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں