پاکستان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کرنے والا دنیا کا پہلا ملک

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کی — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ پبلک ریلیشنز
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کی — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ پبلک ریلیشنز

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کرکے ای-کورٹ کی ابتدا کردی اور اس حوالے سے دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کرتے ہوئے ای-کورٹ سماعت کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

کیس کی سماعت عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں ہوئی جبکہ جج صاحبان سپریم کورٹ، اسلام آباد میں موجود تھے جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کی۔

اسلام آباد سے کیس کی ای-کورٹ سماعت کے دوران فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملزم کی درخواست ضمانت منظور کی جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست ضمانت پر فیصلے میں تاخیر کی انکوائری کا حکم بھی دے دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کیس کے ملزم نور محمد خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست سے متعلق کیس کی ای-کورٹ سماعت کی تھی۔

ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا یہ تجربہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور بینچ میں شامل مزید 2 جج صاحبان دنیا کی تاریخ کے پہلے جسٹس جبکہ سینئر ایڈووکیٹ یوسف لغاری دلائل دینے والے پہلے وکیل بھی بن گئے۔

مزید پڑھیں: غداری کیس: عدالت کا ویڈیو لنک کے ذریعے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کروانے پر غور

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ درخواست ضمانت قبل از گرفتاری 2016 میں دائر کی گئی تھی جس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، کیا آپ کے پاس جواب ہے کہ یہ فیصلہ کیوں نہیں ہوسکا جس پر سرکاری وکیل کوئی جواب نہ دے سکے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ماڈل کورٹ اس لیے بنائیں تاکہ کیس 3 دن میں نمٹ سکے۔

ملزم نور محمد خان کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل شروع کرنے سے قبل کہا کہ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس نظام میں دلائل کے لیے پہلے وکیل کے طور پر پیش ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نظام سے سائلین اور وکلا سب کو فائدہ ہوگا جبکہ درخواست کی کہ یہ نظام ہائی کورٹ اور ان سرکٹ بینچ میں بھی شروع کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی آن لائن سماعت

عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلے میں تاخیر ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملے کی انکوائری کا حکم دیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل سندھ ہائی کورٹ کے ان تین ججز کے خلاف انکوائری کرے گا جو ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کا 3 سال تک فیصلہ نہ کر پائے تھے۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قتل کے ملزم نور محمد خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی منظور کرلی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کے عملے اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے حکام سمیت تمام متعلقہ حکام کو پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی ہونے پر مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا نظام ہے جس نے پاکستان میں کام کرنا شروع کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نظام وکلا اور سائلین کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا جو اپنی متعلقہ رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے کیس کی سماعت کروا سکیں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہی 'ای کورٹ سسٹم' کا پہلی مرتبہ آغاز ہوا ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ای کورٹ ای کورٹ سے کم خرچ سے فوری انصاف ممکن ہوسکے گا اور سائلین پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ٓئی ٹی کمیٹی کے ممبران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مشیر عالم کو خراج تحسین پیش کیا اور چیئرمین نادرا اور ڈائریکٹر جنرل نادرا کی کاوشوں کو بھی سراہا۔

اقدام قتل کے ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں خارج

کراچی رجسٹری سے سپریم کورٹ میں اقدام قتل کے ملزمان ارباب اور مشتاق کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قتل کی نیت کرنا بھی جرم ہے اور قانون کے مطابق اس جرم کی سب بھی 10 سال قید تک ہے جبکہ متاثرہ شخص کو زخم آئے تو اس کی سزا الگ ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اقدام قتل کا کیس قتل کے کیس سے زیادہ سخت ہوتا ہے کیونکہ اس میں زخمی شخص حملہ آور کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے دونوں ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی جس کے بعد پولیس نے ملزمان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: ماتحت عدالتیں معاملات صحیح طریقےسے دیکھیں تو یہ سپریم کورٹ تک نہ آئیں، چیف جسٹس

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ای کورٹ سسٹم سے آج کے دن سائلین کے 20 سے 25 لاکھ روپے بچ گئے، کیونکہ ان کے وکلا بزنس کلاس میں سفر کرتے اور اسلام آباد پہنچ کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے اور سائلین کے ہی خرچ پر وکلا وفاقی دارالحکومت میں کھانے بھی کھاتے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا آئینی ذمہ داری ہے اور ہم اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ بار کے صدر کی چیف جسٹس کو مبارکباد

سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کندرانی نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو مبارکباد پیش کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سستے اور بروقت انصاف کے کے لیے وکلا کا تعاون مطلوب ہے، ہم روز سوچتے ہیں کہ انصاف کے سائلین کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں