’پاکستان کو مزید شپ یارڈز کی ضرورت ہے‘

اپ ڈیٹ 28 مئ 2019
اب تک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، ایران اور بیلجیلئم کے لیے یہاں 448 جہاز ڈیزائن کیے جاچکے ہیں— تصویر بشکریہ کراچی شپ یارڈ ویب سائٹ
اب تک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، ایران اور بیلجیلئم کے لیے یہاں 448 جہاز ڈیزائن کیے جاچکے ہیں— تصویر بشکریہ کراچی شپ یارڈ ویب سائٹ

اسلام آباد: سینیٹ کے ایک پینل نے کراچی میں موجود پاکستان کی واحد شپ یارڈ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ گوادر پورٹ کے آغاز کے بعد مزید شپ یارڈز تعمیر کیے جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ جدید شپ یارڈز کی تعمیر کے لیے گوادر بہترین مقام ہے کیوں کہ خطے میں اس قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں۔

اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ پڑوسی ملک بھارت میں 43 سے زائد شپ یارڈز اور 50 ڈرائی ڈاک یارڈز ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں 23 شپ یارڈ ہیں جس کے باعث وہ شپ برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کو مشرقی پاکستان کے علاقے چٹاگانگ میں برطانوی حکمرانوں کا تعمیر کردہ شپ یارڈ ورثے میں ملا تھا جبکہ کراچی شپ یارڈ 1957 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٓآخر بلیو اکانومی ہے کیا؟ کیوں پاک بحریہ اس پر زور دے رہی ہے؟

کراچی شپ یارڈ کے بارے میں سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس میں ایک مینیجنگ ڈائریکٹر اور 2800 ملازمین ہیں اور اب تک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، ایران اور بیلجیلئم کے لیے یہاں 448 جہاز ڈیزائن کیے جاچکے ہیں۔

مذکورہ شپ یارڈ نیونی فلیٹ ٹینکر بھی تیار کرتا ہے جبکہ دیگر منصوبوں میں المونیئم کشتیاں، تیز رفتار میزائل بردار کشتیاں اور آبدوز شامل ہیں، اس میں جہازوں کی مرمت اور معمول کے انجینئرنگ کاموں سمیت دیگر کام بھی انجام دیے جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے جلاس کی سربراہی سینیٹر لیفٹننٹ (ر) جنرل عبدالقیوم نے کی جبکہ اس میں سینیٹر نعمان وزیر خٹک، نزہت صادق، محمد اکرم، پرویز رشید، محمد علی شاہ جاموٹ، وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال اور کراچی شپ یارڈز اینڈ انجینئرنگ ورکس کے مینجنگ ڈائریکٹرریئر ایڈمرل اتھر سلیم بھی شریک ہوئے۔

مزید پڑھیں: پاک بحریہ کے 17 ہزارٹن وزنی وار شپ ٹینکر فلیٹ کا افتتاح

اجلاس میں گوارد شپ یارڈ منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی جو 750 ایکڑ رقبے پر محیط ہوگا، لیفٹننٹ (ر) جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ شپ یارڈ کو کسی بھی ملک کا اسٹریٹیجک اثاثہ تصور کیا جاتا ہے جو نہ صرف ملک کی مقامی تجارت میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ جہازوں کی برآمد سے کثیر آمدن بھی فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گوادر میں شپ یارڈ تعمیر کرنے کی سمری سابق حکومت نے منظور کرلی تھی اور اب اس سلسلے میں سمندری بندرگاہ کی 4 کلومیٹر کی زمین کے ساتھ 750 ایکڑ زمین الاٹ کردی گئی ہے جبکہ اس ضمن میں 20 کروڑ روپے بھی جاری کیے جاچکے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ گوارد شپ یارڈ کی تعمیر وزارت دفاعی پیداوار کی زیر نگرانی وقت پر مکمل ہونی چاہیے اور وزارت کو اس حوالے سے فزیبیلٹی اسٹڈی بھی کرنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں