فرشتہ قتل کیس: جوڈیشل انکوائری میں پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش

اپ ڈیٹ 30 مئ 2019
انکوائری رپورٹ کے مطابق فرشتہ کےاہلخانہ سے تھانے میں پولیس کا رویہ نامناسب تھا — فائل فوٹو/شٹر اسٹاک
انکوائری رپورٹ کے مطابق فرشتہ کےاہلخانہ سے تھانے میں پولیس کا رویہ نامناسب تھا — فائل فوٹو/شٹر اسٹاک

فرشتہ قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او)، تفتیشی افسر و دیگر پولیس اہلکاروں کو نامناسب رویے رکھنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

ضلعی مجسٹریٹ کے احکامات پر واقعے کی جوڈیشل انکوائری ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر وسیم احمد نے کی۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق فرشتہ کے اہلخانہ سے تھانے میں پولیس کا رویہ نامناسب تھا۔

رپورٹ کے مطابق 'پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تاخیر کا ذمہ دار پولی کلینک کا میڈیکو لیگل افسر نہیں کیونکہ رات کے وقت میڈیکو لیگل افسر کی ہسپتال میں ڈیوٹی ہی نہیں ہوتی'۔

مزید پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: ملزمان کی نشاندہی کیلئے پولیس کی عوام سے مدد کی اپیل

رپورٹ میں نے بتایا گیا کہ 'واقعے کے بعد متاثرہ خاندان کے خلاف لسانی تعصب کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پولیس، علاقہ مکینوں یا ضلعی انتظامیہ نے لسانی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا تھا'۔

انکوائری کے دوران فرشتہ کیس سے جڑے تمام افراد کے بیانات لیے گئے تھے۔

فرشتہ قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کی رہائشی 10 سالہ فرشتہ 15 مئی کو گھر سے باہر نکلی لیکن واپس گھر نہ پہنچی تھی۔

بچی کی گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تلاش کی اور اندراجِ مقدمہ کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس نے اہلِ خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔

جس کے بعد رکنِ قومی اسمبلی کی مداخلت اور ان کی جانب سے مذکورہ معاملہ انسپکٹر جنرل پولیس محمد عامر ذوالفقار خان کے سامنے اٹھانے پر گمشدگی کے 4 روز بعد 19 مئی کو واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: وزیر اعظم کے حکم پر پولیس افسران گرفتار

مقدمے کے اگلے ہی روز بچی کی مسخ شدہ لاش تمہ گاؤں کی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی جب گاؤں کے کچھ افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، بعد ازاں متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے کپڑوں کی مدد سے لاش کی شناخت کی۔

پولیس کے مطابق لاش 4 روز پرانی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا کہ اسے گینگ ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تاہم اس کی تصدیق اور لاش کی حتمی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر لیے گئے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔

لواحقین کے احتجاج کرنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا جبکہ پولیس حکام نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی تردید کی۔

22 مئی کو وزیر اعظم عمران خان نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کر لی تھی۔

پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے شہزاد ٹاؤن کے سب ڈویژنل پولیس افسر کی معطلی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (دیہی علاقہ جات) کی برطرفی کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: 10 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل،اہلخانہ کا شدید احتجاج،2 ملزمان گرفتار

جس پر پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے شہزاد ٹاؤن تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) اور اس کیس کے تفتیشی افسر کو گرفتار کرلیا تھا۔

23 مئی کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں مبینہ ریپ کے بعد قتل کی جانے والی معصوم فرشتہ کے کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

مذکورہ کیس سے متعلق ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کیے تھے۔

انکوائری کے دوران فرشتہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 3 روز تک متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا لیکن تھانے کے ایس ایچ او نے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔

26 مئی کو ملزمان کی نشاندہی کے لیے اسلام آباد پولیس نے عوام سے مدد مانگتے ہوئے اشتہار جاری کیا تھا جس میں انہوں نے اطلاع دینے والے کو 10 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں