ایچ آئی وی کا مرض بے قابو، اقوام متحدہ کی پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی

31 مئ 2019
سندھ میں سامنے آنے والے مریضوں کے علاوہ ملک بھر میں 12 سو بچوں میں ایڈز کی تشخیص کی گئی
سندھ میں سامنے آنے والے مریضوں کے علاوہ ملک بھر میں 12 سو بچوں میں ایڈز کی تشخیص کی گئی

اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایچ آئی وی / ایڈز کی وجوہات کی تحقیقات اور اس پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کی مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

سندھ میں ایچ آئی وی کے پھیلنے کے باعث عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی ہے۔

خیال رہے کہ سندھ میں اب تک 600 افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق کی جاچکی ہے، جن کی اکثریت بچوں اور نوجوان افراد پر مشتمل ہے۔

ایڈز کا شکار ہونے والے نصف سے زائد بچوں کی عمر 5 سال سے کم ہے۔

اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ ' عالمی ادارہ صحت کی ٹیم ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی وجوہات معلوم کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی ٹیسٹنگ، پیڈیاٹرک ایچ آئی سی ٹریٹمنٹ اور فیملی کاؤنسلنگ میں بھی اپنی مہارت فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: شکارپور: ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آنے پر شوہر کے ہاتھوں بیوی کا مبینہ قتل

نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں نیوز بریفنگ کے دوران فرحان حق نے کہا کہ سندھ میں اس پھیلاؤ کے علاوہ پورے پاکستان میں 1200 سے زائد بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے اور انہیں اینٹی ریٹرو وائرل علاج فراہم کیا جارہا ہے۔

سندھ میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ سے متعلق 25 اپریل کو رپورٹ کیا گیا تھا جس کے 3 روز بعد ایچ آئی وی اسکریننگ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کے مشن میں ڈبلیو ایچ اور اور گلوبل آؤٹ بریک الرٹ اور رسپانس نیٹ ورک ( جی او اے آر این ) کے ذریعے ایمرجنسی رسپونس مینیجمنٹ، ایپیڈیمولوجی،ایچ آئی وی کلینیکل کیئر اور انفیکشن سے بچاؤ اور کنٹرول شامل ہیں۔

لاڑکانہ میں ماہرین کی ٹیم پاکستان میں وزارت صحت اور پارٹنز کے ساتھ ملک کر کام کررہی ہیں جن میں آغا خان یونیورسٹی، پاکستان کی فیلڈ ایپیڈیمولوجی اینڈ لیبارٹری ٹریننگ پروگرام (ایف ای ایل ٹی پی)، یو این ایڈز اور یونیسیف شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایچ آئی وی: سندھ کے مختلف اضلاع میں مزید نئے کیسز سامنے آگئے

جینیوا میں ہیڈکوارٹرز سے جاری کیے گئے ایک علیحدہ بیان میں عالمی ادارہ صحت نے کہا کی وہ بچوں اور بڑوں کے لیے تشخیصی ٹیسٹ اور اینٹی ریٹروائرل ادویات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سرنجوں کے ایک مرتبہ کو استعمال کو یقینی بنارہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں میں انفیکشن موجود ہونا ایک بڑا چیلنج ہے، 16 مئی کو مقامی حکام نے ایڈز کے علاج کے لیے اینٹی ریٹرووائر ٹریٹمنٹ کلینک تشکیل دیا تھا۔

پاکستان ایچ آئی کی بدترین شرح والے جنوبی ایشیائی ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر سال 20 ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ایچ آئی وی کے حامل صرف 16 فیصد افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔


یہ خبر 31 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں