زلمے خلیل زاد کا پاکستان سے افغان امن عمل میں مزید کردار ادا کرنے پر اصرار

اپ ڈیٹ 04 جون 2019
اسلام آباد میں بامعنی 24 گھنٹے، پاکستانی رہنماؤں کو گزشتہ ماہ ہونے والی پیش رفت پر بریفنگ دی — رائٹرز /فائل فوٹو
اسلام آباد میں بامعنی 24 گھنٹے، پاکستانی رہنماؤں کو گزشتہ ماہ ہونے والی پیش رفت پر بریفنگ دی — رائٹرز /فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سویلین اور ملٹری حکام کو آگاہ کیا ہے کہ امریکا، پاکستان سے افغان امن عمل میں مزید کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے 16 روزہ بین الاقوامی دورے کے آغاز میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا، اس دورے میں وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے قطر بھی جائیں گے۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ 'انہوں نے اسلام آباد میں بامعنی 24 گھنٹے گزارے، اس دوران پاکستانی رہنماؤں کو گزشتہ ماہ ہونے والی پیش رفت پر بریفنگ دی'۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ' ملاقات میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ پاکستان، افغان امن عمل میں مدد کے لیے مزید کیا اقدامات کرسکتا ہے، افغانستان کے امن میں پاکستان کا تعاون خطے کے مفاد میں اور پاک-امریکا تعلقات مضبوط کرنے کے لیے اہم ہیں'۔

مزید پڑھیں: امریکا، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا معترف

گزشتہ برس شروع ہونے والے امن عمل سے لے کر اب دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے 6 دور ہوچکے ہیں۔

تاہم نیویارک ٹائمز نے 2 روز قبل رپورٹ کیا تھا کہ ' طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات جمود کا شکار دکھائی دیتے ہیں'۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دونوں فریقین نے امریکی افواج کے انخلا کے بدلے طالبان کی سیکیورٹی کی ضمانت کے معاہدے پر کچھ پیش رفت کی ہے لیکن وہ افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق مذاکرات کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔

واشنگٹن میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اب ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ طالبان کو امن معاہدے پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے ' اہم کردار ' ادا کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد، وفود کی سطح پر مذاکرات

رواں سال کے آغاز میں زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ پاکستان نے طالبان وفود کو دوحہ میں مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے میں امریکا کی مدد کی۔

اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے طالبان ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا تھا تاکہ وہ امن مذاکرات میں حصہ لے سکیں۔

ملا برادر اب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی مرکز کی سربراہی کررہے ہیں۔

دوسری جانب طالبان، افغانستان کے اپوزیشن رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرچکے ہیں لیکن وہ کابل کی حکومت سے براہ راست مذاکرات سے انکار کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے طالبان حکام نے ماسکو میں ایک ملاقات میں شرکت کی تھی جس میں روسی دارالحکومت میں کابل کے نمائندے اور افغانستان کے وفد نے بھی شرکت کی۔

واشنگٹن میں افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی لوریل میولر نے ٹرمپ انتظامیہ کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کے بغیر کوئی معاہدہ کرنے سے خبردار کردیا۔


یہ خبر 4 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں