افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکا پڑوسی ممالک کے وسیع تر کردار کا خواہاں

اپ ڈیٹ 08 جون 2019
امریکی نمائندہ خصوصی اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے 6 ادوار مکمل ہوچکے ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
امریکی نمائندہ خصوصی اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے 6 ادوار مکمل ہوچکے ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی منصوبے میں کابل کے پڑوسی ممالک کے لیے اہم کردار ہے اور بظاہر اسی لیے انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

زلمے خلیل زاد نے ایک ہفتہ قبل اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور اب وہ نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ برسلز میں ہونے والی مشاورت مکمل کرچکے ہیں اور مزید بات چیت کے لیے دوبارہ جنوبی ایشیائی خطے کا دورہ کریں گے۔

اس ضمن میں گذشتہ دنوں ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ برسلز میں ہونے والی گفتگو کا محور افغانستان میں امن کی صورت میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے پیدا ہونے والے ’اقتصادی مواقع‘ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا پاکستان سے افغان امن عمل میں مزید کردار ادا کرنے پر اصرار

نیٹو اور یورپی یونین کے حکام سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ امن کو ترجیح کیوں دی جائے اور ہم کس طرح بین الافغان مذاکرات کرسکیں گے'۔

اس سے قبل اسلام آباد کے دورے کے موقع پر انہوں نے اس حوالے سے گفتگو کی تھی کہ ’پاکستان کس طرح افغان امن عمل کی پیش رفت میں مدد کرسکتا ہے‘۔

امریکی نیم سرکاری نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق ’امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، طالبان پر اپنے موقف میں لچک دکھانے کے لیے زور ڈالے'۔

زلمے خلیل زاد نے 31 مئی کو مختلف ممالک کے دوروں کا آغاز کیا تھا اور اس دوران وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی جائیں گے۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد، طالبان کے ہتھیار ڈالنے کا خیال بھول جائیں، ترجمان

خیال رہے کہ گذشتہ برس شروع ہونے والے افغان مفاہمتی عمل میں امریکی نمائندہ خصوصی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے 6 ادوار کرچکے ہیں۔

تاہم امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ طالبان کے افغان حکومتی عہدیداروں سے بات چیت کرنے سے انکار کرنے اور فوری جنگ بندی کے امریکی مطالبے کو مسترد کردینے کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔

کیوں کہ اس کے جواب میں امریکا نے بھی اس وقت تک امریکی اور غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا منصوبہ فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے جب تک عسکریت پسند اس کے مطالبات تسلیم نہیں کرلیتے۔

اب زلمے خلیل زاد کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے علاقائی منصوبہ تشکیل دیا ہے جس کے تحت افغانستان میں امن عمل بڑھانے کے لیے اس کے پڑوسی ممالک کا کردار اہم ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: زلمے خلیل زاد کو رواں سال ہی افغان جنگ کے اختتام کی اُمید

اس منصوبے کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ طالبان کو یہ باآور کروایا جائے کہ امریکا اور اس کے اتحادی اس وقت تک فوجوں کا انخلا نہیں کریں گے جب تک تمام فریقین اس سمجھوتے پر رضامند نہ ہوجائیں کہ افغانستان میں امن کس طرح لایا جائے۔

نیٹو سیکریٹری جنرل سے ملاقات کے بعد زلمے خلیل زاد نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہم افغانستان میں اکٹھے گئے تھے اور وہاں اکٹھے موجود رہے اور اب ایک ساتھ ہی واپس آئیں گے۔


یہ خبر 8 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں