مودی کی ایوان بالا میں بھی اکثریت پر نظریں، متنازع قانون سازی کے خدشات

اپ ڈیٹ 09 جون 2019
مودی کی جماعت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام حاصل خصوصی حق ختم کرنا چاہتی ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی
مودی کی جماعت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام حاصل خصوصی حق ختم کرنا چاہتی ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اتحادی جماعتیں عام انتخابات میں کامیاب کے بعد چند علاقائی جماعتوں کی مدد سے اگلے برس ایوان بالا (راجیا سبھا) میں بھی اپنی برتری حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہیں جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر سمیت کئی اہم معاملات پر متنازع قانون سازی کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے نجی ادارے پی آر ایس لیجسلیٹو ریسرچ کا کہنا ہے کہ ایوان بالا میں بی جے پی تنہا 83 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جو ان کی موجودہ نشستوں کے مقابلے میں 10 زیادہ ہوں گی۔

پی آر ایس کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی سربراہی میں جماعتوں کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) 107 نشستیں حاصل کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں موجودہ برتری میں مزید 7 نشستوں کا اضافہ ہوجائے گا تاہم 243 اراکین کے ایوان میں واضح برتری کے لیے مزید 15 نشستیں درکار ہوں گی۔

خیال رہے کہ بھارتی ایوان بالا کے اکثر اراکین کاانتخاب ریاستوں سے منتخب ہونے والے قانون ساز کرتے ہیں جبکہ درجنوں اراکین کو وفاقی حکومت نامزد کرتی ہے جو 6 برس کے لیے منتخب ہوتے ہیں جن کی ایک تہائی تعداد ہر دوسرے سال ریٹائر ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیں:بھارت میں پھر مودی سرکار، بی جے پی کی واضح برتری

پی آر ایس کے نتائج کے مطابق این ڈی اے کو ایوان میں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے 122 نشستیں درکار ہیں تاہم مشرقی اور مغربی ریاستوں سے کامیابی کے لیے انہیں علاقائی جماعتوں کا تعاون درکا ہوگا۔

این ڈی اے اتحاد کو بھارتی کی شمالی ریاست اترپردیش میں اکثریت حاصل ہے جہاں بی جے پی نے 2017 کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔

علاقائی جماعتوں کی بی جے پی اتحاد کے ساتھ ماضی میں تعاون کی بات کی جائے تو کئی اہم جماعتوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ہے جبکہ بی جے پی کو ایوان زیریں میں واضح برتری حاصل ہے کیونکہ حال ہی میں منعقدہ عام انتخابات میں پہلے کے مقابلے میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:مودی کی کامیابی، بھارت کو ’ہندو ریاست‘ کی شناخت دینے کا مشن مکمل؟

بی جے پی کے پچھلے مدت حکومت میں اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا میں حکومتی قانون سازی کے کئی اہم معاملات کو ناکام بنا دیا تھا۔

بی جے پی کے نائب صدر بیجائنت پانڈا کا کہنا تھا کہ ‘پہلی مدت میں کئی کام ادھورے رہ گئے تھے کیونکہ این ڈی اے کو راجیا سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی اور اب ہم پر امید ہے کہ ان میں سے کئی معاملات کو پاس کرسکیں گے اور قانون سازی کریں گے’۔

عام انتخابات سے قبل بی جے پی نے بھارتی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت دیگر پڑوسی ملکوں سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی گے جس کے لیے قانون سازی کی جائے گی جو متوقع طور پر حکومتی اتحاد کا اہم معاملہ ہوگا۔

حکومت کے منصوبوں میں سرفہرست مسلمانوں کے حوالے سے تین طلاقوں کا قانون بھی ہوسکتا ہے اس کے علاوہ لیبر قوانین اور زمینی کی ملکیت کے قوانین سمیت اہم معاشی اصلاحات کا ایجنڈا شامل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بھارتی صنعت کے پرانے مطالبات ہیں۔

مزید پڑھیں:بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید ایک کشمیری نوجوان شہید

بی جے پی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی نظریں دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے مقبوضہ جموں اور کشمیر کے عوام کو دہائیوں سے حاصل خصوصی حقوق کے خاتمے جیسی آئینی ترامیم منظور کی جائیں گی جبکہ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں پرانا تنازع ہے اور اس معاملے پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی موجود ہیں۔

دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس ایوان بالا میں 2020 میں 12 نشستوں سے محروم ہوگی اور اس کی مجموعی تعداد 38 رہ جائے گی۔

بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں کانگریس کو عام انتخابات میں صرف 52 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جس کے مقابلے میں بی جے پی کے ریکارڈ 303 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں