ایسٹر حملہ آور سری لنکا کے پے رول پر تھے، مسلم رہنما

اپ ڈیٹ 13 جون 2019
مسلم رہنما نے 21 اپریل کو ہونے والے حملے میں سیکیورٹی کی ناکامی پر شواہد کے طور پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا — فائل فوٹو/رائٹرز
مسلم رہنما نے 21 اپریل کو ہونے والے حملے میں سیکیورٹی کی ناکامی پر شواہد کے طور پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا — فائل فوٹو/رائٹرز

سری لنکا کے معروف مسلمان رہنما نے پارلیمانی تحقیقات کو بتایا ہے کہ ایسٹر بم دھماکے میں ملوث شدت پسندوں نے سرکاری خفیہ ایجنسی سے فنڈز وصول کیے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق آزتھ صالح نے، جنہوں نے گزشتہ ہفتے سری لنکا کے مغربی صوبے کے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا، 21 اپریل کو ہونے والے حملے میں سیکیورٹی کی ناکامی پر شواہد کے طور پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم سری لنکا توحید جماعت (ایس ایل ٹی جے) سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے بم حملوں کی قیادت کرنے والے ظہران ہاشم نے اپنی علیحدہ قومی توحید جماعت بنائی تھی۔

مزید پڑھیں: ایسٹر دھماکوں کے بعد سری لنکا میں حجاب پر پابندی

آزتھ صالح نے پارلیمانی سلیکشن کمیٹی (پی ایس سی) کو بتایا کہ انہوں نے متعدد بار صدر متھری پالا سریسینا کو اس تنظیم کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت دفاع نے توحید جماعت کو فنڈز مہیا کیے اور پولیس توحید جماعت کے ساتھ کام کر رہی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تنظیم کو یہ فنڈز دیگر جماعتوں کی مخبری کے لیے دیئے جاتے تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ حملے سے ایک ہفتے قبل انہوں نے اعلیٰ دفاعی حکام سے ملاقات کی تھی اور انہیں شدت پسندی کے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’اگر پولیس نے اس وقت میری اطلاع پر کارروائی کی ہوتی تو ایسا سانحہ رونما نہیں ہوتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا: ایسٹر دھماکوں کے تمام ذمہ داران کو ہلاک یا گرفتار کرلیا گیا، پولیس چیف

واضح رہے کہ پارلیمانی سلیکشن کمیٹی، اعلیٰ دفاعی پولیس حکام کے بیانات ریکارڈ کرچکی ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حکام حملے کے حوالے سے متعدد خدشات کے باوجود موثر سیکیورٹی اقدامات کرنے میں ناکام رہے تھے۔

علاوہ ازیں سری لنکا کے صدر نے قومی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کو برطرف کردیا تھا۔

انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے کہا تھا کہ صدر متھری پالا سریسینا اس طرح کی شدت پسندی کے خدشات کے حوالے سے سیکیورٹی اجلاس بلانے میں ناکام رہے تھے۔

ان کے دفاعی سیکریٹری اور پولیس سربراہ نے کہا تھا کہ صدر، جو ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں، نے بم حملوں کے حوالے سے انٹیلی جنس خدشات سے نمٹنے کے لیے واضح طریقہ کار نہیں اپنایا تھا۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: مساجد کو خطبے کی کاپیاں جمع کرانے کا حکم

صدر نے پارلیمانی سلیکشن کمیٹی سے تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے اور اپنے سینیئر افسران کو جرح سے منع کردیا ہے۔

تاہم پارلیمنٹ نے انہیں خبردار کیا ہے کہ طلبی کو نظر انداز کیے جانے پر انہیں 10 سال قید ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب کمیٹی کی کارروائی کی نشریات بھی روک دی گئی ہیں۔

سری لنکا کے صدر خدشات کے حوالے سے علم ہونے کی خبروں کی مسلسل تردید کرتے آرہے ہیں۔

بم دھماکوں کے بعد انہوں نے پولیس سربراہ پوجتھ جایاسندرا کو معطل اور اپنے اعلیٰ دفاعی عہدیدار فرنانڈو کو برطرف کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں